سکیورٹی اور ہتھیاروں کی کمی پر مرکوز، امریکہ اور شمالی کوریا کی سفارتی تاریخ کے اہم واقعات کے ماہ و سال کا ایک مختصر احوال ذیل میں دیا جا رہا ہے:
1985

دسمبر میں شمالی کوریا نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے منصوبے کی توثیق کی۔ اس کثیر الجہتی سمجھوتے کے تحت ممالک جوہری ہتھیاروں اور ٹکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنے اور جوہری توانائی سے متعلق پرامن تعاون کو فروغ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔
1992

جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا نے اتفاق کیا۔ اس معاہدے کے تحت جوہری ہتھیاروں پر پابندی لگائی گئی اور دونوں ممالک نے جوہری توانائی کو صرف پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا وعدہ کیا۔
1993

شمالی کوریا نے ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی جانب سے معائنوں کو مسترد کردیا اور جوہری ہتھیاروں کےعدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکلنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔
بعد ازاں نیویارک میں امریکی سفارت کاروں کے ساتھ مذاکرات کے بعد شمالی کوریا نے معاہدے سے اپنی دستبرداری کو معطل کر دیا۔ شمالی کوریا میں پہلے معائنے مارچ 1994 میں اختتام پذیر ہوئے۔
1994

جمی کارٹر نے جون میں شمالی کوریا کا دورہ کیا اور اس ملک کے بانی اور راہنما، کِم اِل سُنگ سے ملاقات کی۔ کارٹر پہلے سابقہ امریکی صدر ہیں جنہوں ںے شمالی کوریا کا دورہ کیا۔
اکتوبر میں امریکہ اور شمالی کوریا نے “متفقہ نکات کے ڈھانچے” پر دستخط کیے۔ امداد، ایندھن کی فراہمی اور دیگر فوائد کے بدلے، شمالی کوریا جوہری ری ایکٹروں کی تعمیر اور پلوٹونیم کی پیداوار کو منجمد کرنے پر رضا مند ہوا۔
2000

امریکہ اور شمالی کوریا باری باری خیرسگالی کے دوروں کی میزبانی کرتے ہیں۔ اکتوبر میں شمالی کوریا کے اعلٰی فوجی اہلکار، جو میونگ رک نے واشنگٹن میں صدر بل کلنٹن سے ملاقات کی۔
اُسی مہینے کے اواخر میں متفقہ نکات کے ڈھانچے کو وسعت دینے اور صدر کلنٹن کے ممکنہ دورے کی تیاری کرنے کے لیے وزیرخارجہ میڈلین آلبرائٹ نے شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اِل سے ملاقات کی۔ تاہم دونوں فریقین میں دورے یا کسی معاہدے پر پہنچنے پر اتفاق نہ ہو سکا۔
2003 – 2007

2003 میں شمالی کوریا کی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبرداری کے بعد امریکہ، شمالی کوریا، جنوبی کوریا، جاپان، چین، اور روس پر مشتمل چھ فریقین کے مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔
فروری2007 میں اس وقت پیش رفت ہوئی جب ایندھن کی شکل میں امداد اور امریکہ اور جاپان کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لیے اقدامات اٹھانے کے بدلے، شمالی کوریا اپنے جوہری تنصیبات بند کرنے پر راضی ہوا۔
2009

چھ فریقی مذاکرات اُس وقت ختم ہوگئے جب شمالی کوریا نے میزائل داغنے کا اعلان کیا۔ شمالی کوریا کے اس فعل کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر مذمت کی۔
اقوام متحدہ کی مذمت کے ردعمل میں شمالی کوریا چھ فریقی مذاکرات سے یہ کہتے ہوئے علیحدہ ہو گیا کہ وہ اِن مذاکرات کے دوران ہونے والے کسی سمجھوتے کا پابند نہیں ہوگا۔ شمالی کوریا نے جوہری ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کو ملک سے بیدخل کر دیا اور ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کو مطلع کیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو دوبارہ شروع کر دے گا۔
2009 – 2017

چھ فریقی مذاکرات سے نکلنے کے بعد گاہے بگاہے شمالی کوریا یہ کہتا رہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے کی جانب قدم بڑہائے گا۔ 2016 سے 2017 تک تین جوہری تجربات اور 40 سے زائد بیلسٹک میزائل داغنے سمیت، شمالی کوریا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تجربے کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔
2018 – 2019

12 جون 2018 کو امریکہ اور شمالی کوریا کے لیڈروں کے درمیان سنگاپور میںپہلی ملاقات ہوئی۔ صدر ٹرمپ اور چیئر مین کم جونگ ان نے ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے جس میں جزیرہ نمائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے اور امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان نئے تعلقات قائم کرنے سمیت کئی ایک مقاصد کی توثیق کی گئی۔
دونوں لیڈروں کی دوسری ملاقات 27 اور 28 فروری 2019 کو ویت نام کے شہر ہنوئی میں ہوئی۔ اُن کی تیسری ملاقات کوریا کے غیرفوجی علاقے میں 30 جون 2019 کو ہوئی اور اس طرح صدر ٹرمپ شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے اولین امریکی صدر بن گئے۔