امریکہ اور فلپائن کے دوستی کے مضبوط بندھن

دوسری جنگ عظیم میں بحرالکاہل کے خطے کو آزاد کرانے کے لیے امریکہ اور فلپائن کی افواج نے شانہ بشانہ جنگ لڑی۔ 1951 سے دونوں ممالک کے درمیان قائم باہمی دفاع کے ایک معاہدے کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ میں دونوں ممالک چوتھائی صدی سے اکٹھے کام کر رہے ہیں۔

تاہم امریکہ اور فلپائن کے درمیان قریبی تعلقات صرف دفاعی امور تک ہی محدود نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کی جمہوری اقدار، آزاد منڈی کی معیشتیں اور زبان (فلپائنی زبان کے ساتھ ساتھ فلپائن میں انگریزی دوسری سرکاری زبان ہے) بھی ایک جیسی ہے۔ فلپائن میں امریکی سفیر سنگ کم کا کہنا ہے کہ ”امریکہ اور فلپائن کی دوستی مشترکہ قربانیوں  اور مشترکہ اقدار کی بنیاد پر قائم ہے۔”

Soldiers moving into assault positions (U.S. Navy/Mass Communication Specialist 2nd Class Markus Castaneda)
مئی 2018 میں امریکہ اور فلپائن کی بالیکاٹان [شانہ بشانہ] کے نام سے ہونے والی سالانہ فوجی مشقوں کے دوران فلپائن کے میرین فوجی پوزیشن لیتے ہوئے۔ (U.S. Navy/Mass Communication Specialist 2nd Class Markus Castaneda)
دونوں ممالک میں عوامی سطح پر باہمی روابط بھی وسیع ہیں۔ کم و بیش 40 لاکھ امریکیوں کے آبا و اجداد کا تعلق فلپائن سے ہے۔ قریباً 650،000 امریکی ہر سال تفریحی  یا کاروباری مقاصد سے جزائر پر مشتمل اس ملک میں جاتے ہیں۔ مزید براں فلپائنی نژاد سابقہ امریکی فوجیوں سمیت 220,000  دیگر امریکی شہری بھی  فلپائن میں رہتے ہیں۔

فلپائن کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں 1961 میں صدر جان ایف کینیڈی نے “پیس کور” کے رضاکار سب سے پہلے بھیجے تھے۔ دنیا بھر میں چلنے والے فلبرائٹ سکالر کے تبادلے کے پروگراموں میں سے بلا تعطل چلنے والا سب سے پرانا پروگرام، فلپائن میں ہے۔

Three people moving large concrete jackstone into water (Peace Corps)
پیس کور کی رضاکار تھریسا لیوئس، بائیں جانب پانی کو روکنے کے لیے مصنوعی رکاوٹ کھڑی کرنے میں ماہی گیروں کی مدد کر رہی ہیں۔ (Peace Corps)

دونوں اتحادی متعدد مرتبہ مشکل ادوار میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ فلپائن کی پولیس نے 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم دھماکوں کے مرتکب کو ڈھونڈنے میں امریکی حکام کی مدد کی۔ 2013 میں بہت بڑے یولانڈا نامی طوفان کے بعد امریکہ نے فلپائن کو کروڑوں ڈالر مالیت کی امداد فراہم کی تھی۔ 2017 میں جنوبی شہر ماراوی کو اسلامی جنگجوؤں سے آزاد کرانے کے لیے امریکی انٹیلی جنس نے فلپائنی  فوج کی معاونت کی تھی۔

دونوں ممالک کی مشترکہ تاریخ 1898 سے شروع ہوتی ہے جب امریکہ نے فلپائن میں ساڑھے تین سو برسوں پر محیط سپین کے جابرانہ نوآبادیاتی اقتدار کا خاتمہ کیا۔ امریکہ نے فلپائن میں عالمگیر تعلیم عامہ متعارف کرانے، سڑکوں، نکاسی آب اور طبی نگہداشت کا نظام بہتر بنانے میں مدد دی۔ کئی دہائیوں بعد امریکی ہسپتالوں میں نرسوں کی شدید کمی دور کرنے کے لیے فلپائن سے مدد لی گئی۔

امریکہ میں فلپائن کے سفیر ہوزے مینوئل روموالڈز کہتے ہیں، ”دونوں ممالک کی تاریخ میں بہت کچھ مشترک ہے۔”

پیو ریسرچ سنٹر کے زیراہتمام عالمگیر رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے میں ہر 6 میں سے 5 فلپائنی شہریوں نے امریکہ کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ کسی اور ملک نے اس سے زیادہ مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ تین چوتھائی سے زیادہ فلپائنی شہری صدر ٹرمپ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں جو کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت ایک بڑی تعداد ہے۔

یونیورسٹی آف سان فرانسسکو کی ماہر عمرانیات، ایویلین راڈریگز کے والدین فلپائن سے نقل مکانی کر کے امریکہ آ گئے تھے۔ وہ 20ویں صدی کے ابتدائی نصف میں فلپائن پر امریکی کنٹرول کی نقاد ہیں حالانکہ اس دور میں وہاں سماجی ترقی بھی ہوئی۔ اپنی تنقید کے باوجود وہ کہتی ہیں، ”اس دیرینہ اور خصوصی تعلق پر ہر دور میں فخر محسوس کیا جات رہا ہے۔”

Man standing with arms crossed under archways (© Paolo Luca/Philippine Arts in Venice Biennale)
ہر دو سال بعد ہونے والی وینس کی فن تعمیر کی نمائش میں فلپائن کی پیویلین تیار کرنے والے یونیورسٹی آف سن سنیٹی میں فن تعمیرات کے پروفیسر، ایڈسن کیبل فِن اپنی کامیاب پیشہ وارانہ زندگی کا سہرا فلبرائٹ فیلو شپ کے سر باندھتے ہیں۔ (© Paolo Luca/Philippine Arts in Venice Biennale)

امریکہ میں 39 لاکھ فلپائنی نژاد امریکی تیسرا سب سے بڑا ایشیائی نسلی گروہ ہیں۔ راڈریگز کہتی ہیں کہ یہاں نئے آنے والے فلپائنی امریکی معاشرت میں باآسانی گھل مل جاتے ہیں “کیونکہ ناصرف وہ انگریزی زبان روانی سے بولتے ہیں بلکہ امریکی ثقافت سے بھی [پہلے سے ہی] ہم آہنگ ہوتے ہیں۔”

سفیر راڈریگز کے مطابق دونوں ممالک کے مابین تعلقات پختہ ہو چکے ہیں اور جتنے اچھے تعلقات آج ہیں اتنے  پہلے کبھی نہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں “فلپائنی امریکہ کو اپنے بڑے بھائی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اب یہ تعلق دیرینہ دوستوں اور اتحادیوں کا سا ہے۔ جب بھی ہم کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو ایک دوسرے سے مشاورت کرتے ہیں۔”