امریکہ اور نیٹو کا عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اشتراک

بہت سارے جھنڈوں کے سامنے سات آدمی کھڑے ہیں (© Johanna Geron/AP Images)
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن (بائیں سے دوسرے) اور وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن (درمیان میں) نے 14 اپریل کو برسلز میں نیٹو اتحادیوں کے ساتھ سکیورٹی کے عالمی مسائل پر بات چیت کی۔ (© Johanna Geron/AP Images)

امریکہ اور اس کے اتحادی روس سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ اپنی فوج میں اضافہ بند کرے اور اپنے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کرے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 14 اپریل کو برسلز میں شمالی بحراوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کے ایک اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ 30 اتحادی ممالک کے نمائندے متفقہ طور پر روس کے (یوکرین کی سرحد) پر اپنی فوج میں اضافے کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ماسکو تناؤ میں کمی لائے۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس سٹولٹن برگ نے 2014 میں کریمیا پر غیرقانونی حملے اور قبضے کے بعد سے روس کی سب سے بڑے فوجی اضافے کو جارحیت کے وسیع تر نمونوں کا ایک حصہ قرار دیا ہے جس سے انتہائی سنگین خدشات پیدا ہو گئے  ہیں۔

سٹولٹن برگ نے کہا، “اتحادی یوکرائن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اور ہم روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر (اس اضافے میں)  کمی لائے، جارحانہ اشتعال انگیزی کا چلن بند کرے اور اپنے بین الاقوامی وعدوں کا احترام کرے۔”

15 اپریل کے ایک بیان میں ، نیٹو کے اتحادیوں نے “روس کی عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں کے ردعمل میں امریکہ کے 15 اپریل کے اعلان کے اقدامات کی حمایت کی اور (امریکہ کے ساتھ) یکجہتی کے طور پر کھڑے رہنے ” کا اظہار کیا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا، “اتحادیوں کی اجتماعی سلامتی کو بڑھانے کی خاطر اتحادی، انفرادی اور اجتماعی طور پر اقدامات کر رہے ہیں۔”

 مائیک کے پیچھے جینس سٹولٹن برگ (© Johanna Geron/AP Images)
نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس سٹولٹن برگ نے 14 اپریل کو برسلز میں تقریر کرتے ہوئے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ اپنی فوج میں اضافے کو ختم کرے۔ (© Johanna Geron/AP Images)

نیٹو نے کشیدگی میں کمی لانے کا مطالبہ، روسی فوج میں اضافے کی سات ممالک (جی 7) کے گروپ کی جانب سے کی جانے والی 12 اپریل کی مذمت کے بعد کیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلی نمائندے سمیت جی 7 ممالک یعنی امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور برطانیہ نے ایک اعلامیے میں کہا، “کسی پیشگی اطلاع کے بغیر یہ بڑے پیمانے کی نقل و حرکت دھمکی آمیز اور عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔”

افغانستان

ایک ماہ میں ہونے والے اپنے دوسرے اجلاس کے دوران بلنکن اور نیٹو اتحادیوں نے افغان عوام کی حمایت جاری رکھتے ہوئے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے مشترکہ منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔

صدر بائیڈن نے اسی دن اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور اتحادی ممالک یکم مئی سے افغانستان سے فوجیوں کے آخری انخلا کا آغاز اس مقصد کے ساتھ کریں گے کہ رواں سال کے 11 ستمبر تک تمام فوجیوں کا انخلا مکمل ہو جائے۔

اس بات کو یقینی بنانے پر بلنکن نے نیٹو کے تعاون کی تعریف کی کہ افغانستان اب دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بنے گا۔ انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ نیٹو معاہدے کے تحت 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد، تاریخ میں پہلی مرتبہ اور واحد موقعے پر نیٹو کے بنیادی معاہدے کی شق 5 کو بروئے کار لایا گیا۔ یہ اس شق کا عملی ثبوت تھا کہ ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوتا ہے۔

بلنکن نے کہا، “امریکہ کبھی بھی اس یکجہتی کو فراموش نہیں کرے گا جس کا مظاہرہ ہمارے نیٹو اتحادیوں نے ہر مرحلہ پر کیا ہے۔ کوئی ملک وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا جو کچھ مل کر کام کرنے والے ایک اتحاد نے حاصل کیا ہے۔”

باہمی تعاون کی کوششوں کی انتہا پر، 50 نیٹو اور شراکت دار ممالک نے افغانستان میں اتحاد کے لیے اپنے فوجی بھجوائے۔ اس وقت بھی وہاں 35 شراکت داروں اور اتحادیوں کی افواج موجود ہیں۔ بلنکن نے اجلاس میں کہا، “ہم اپنے فوجیوں کا انخلا ذمہ داری سے، سوچ سمجھ کر، اور بحفاظت مکمل کریں گے۔”

بلنکن نے مزید کہا کہ امریکہ، افغانستان کے لوگوں پر سرمایہ کاری کرنا جاری رکھے گا اور معاشرے میں افغان عورتوں اور لڑکیوں کے مساوی نمائندگی کے حق کی حمایت کرتا رہے گا۔ بلنکن برسلز سے افغان صدر اشرف غنی اور افغانستان کے قومی مفاہمت کے اعلی کمشن کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ سے ملاقات کرنے کے لیے کابل روانہ ہوگئے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ، بلنکن نے 15 اپریل کو ایک اجلاس کے دوران صدر غنی کو بتایا، “میں اپنے دورے سے اسلامی جمہوریہ اور افغانستان کے عوام کے ساتھ امریکہ کی وابستگی کے جاری رہنے کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا۔ شراکت بدل رہی ہے، تاہم یہ شراکت داری پائیدار ہے۔”