
امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک ایسی مشترکہ شراکت داری ہے جس کی ابتدا 1947 میں پاکستان کے ایک ملک کی حیثیت سے وجود میں آنے کے وقت ہوئی۔
ذیل میں گزشتہ 75 برسوں پر پھیلے سفارتی تعلقات اور دوستی کی کچھ جھلکیوں پر ایک نظر ڈالی گئی ہے:-

14 اگست 1947 کو صدر ہیری ایس ٹرومین نے جب محمد علی جناح کو مبارک باد کا پیغام بھیجا تو امریکہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ امریکہ نے جناح کو “اُس خواب کا موجد قرار دیا جس کی تعبیر پاکستان کی شکل میں سامنے آئی۔” اس کے اگلے ہی دن دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اوپر تصویر میں ٹرومین (بائیں) اور پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان (درمیان میں) 3 مئی 1950 کو واشنگٹن میں پاکستانی وزیر اعظم کے دورہِ امریکہ کے دوران ملاقات کر رہے ہیں۔

جیکولین کینیڈی نے 1962 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی امریکی صدر کی اہلیہ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ انہوں نے لاہور میں مغلیہ دور کے مقامات کی سیر کی اور وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع درہِ خیبر گئیں۔ اوپر تصویر میں مسسز کینڈی (دائیں) اپنی ہمشیرہ، لی ریڈزیول کے ہمراہ اونٹ پر سوار ہیں۔

1960 کی دہائی میں امریکی حکومت نے منگلا اور تربیلہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈز کی فراہمی میں مدد کی جس کے نتیجے میں ملک کو بجلی میسر آئی۔ اوپرتصویر میں 1963 میں منگلا ڈیم کے پراجیکٹ پر کام کرنے والا ایک مزدور وقفے کے دوران پتھروں پر بیٹھا ہوا ہے۔ بعد میں امریکہ نے گومل زم ڈیم کی تعمیر میں بھی مدد کی۔

اپنی صدارتی مدت کے پہلے سال میں صدر رچرڈ نکسن نے اپنی اہلیہ پیٹ کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا۔ صدر نے کہا کہ پاکستانی مہمان نوازی پر “دنیا کی کوئی قوم سبقت نہیں لے سکتی۔” اوپر خاتون اول یکم اگست 1969 کو ایک پاکستانی سکول کے دورے کے دوران قوالی سن رہی ہیں۔

پاکستانی صدر محمد ضیا الحق (بائیں) 3 اکتوبر 1980 کو وائٹ ہاؤس میں صدر جمی کارٹر اور (دوسری قطار کے وسط میں) قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو بریزنسکی کے ساتھ ملاقات کے بعد خطاب کر رہے ہیں۔ کارٹر نے کہا کہ “امریکہ کے عوام پاکستان کی عظیم قوم کے لوگوں اور قائدین کی جرات کے سب سے زیادہ معترف ہیں۔”

صدر جارج ڈبلیو بش (درمیان میں) اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان (دائیں سے دوسرے نمبر پر) کرکٹ کے کھلاڑیوں کے ہمراہ 4 مارچ 2006 کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں کرکٹ کھیلنے کے لیے جمع ہیں۔

جب 2010 میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے پاکستان کے کئی علاقوں میں شدید سیلاب آیا اور اس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تو امریکہ مدد کے لیے آیا۔ اوپر امریکہ کے میرین فوجی 18 اگست 2010 کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ہیلی کاپٹر سے امدادی سامان اتارنے میں پاکستانی شہریوں کی مدد کر رہے ہیں۔

نائب صدر جو بائیڈن (بائیں) 12 جنوری 2011 کو ایوان صدر اسلام آباد میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر رہے ہیں۔ بائیڈن نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو “انتہائی اہم” قرار دیا۔

پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور امریکی سفراء کے ثقافتی تحفظ کے فنڈ سے 31 تاریخی مقامات کی بحالی میں مدد کی گئی۔ اِن میں سے کچھ تاریخی مقامات دو ہزار سال پرانے ہیں۔ بحال کی جانے والی عمارتوں میں بدھ خانقاہیں، ہندو یادگاریں، مغلیہ سلطنت کے آثار قدیمہ اور پنجاب میں (اوپر دکھایا گیا) کوٹ مٹھن میں واقع حضرت خواجہ غلام فرید کا مزار شامل ہیں۔

صدر بارک اوباما (بائیں سے دوسرے) نے 22 اکتوبر 2015 کو وائٹ ہاؤس میں تب کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی جس کے دوران صدر نے “صرف سیکورٹی کے معاملات پر ہی نہیں، بلکہ اقتصادی اور سائنسی اور تعلیمی امور میں بھی” تعاون پر زور دیا۔

امریکی حکومت کرونا وائرس کے خلاف پاکستان کی جنگ میں مدد کے لیے کووڈ-19 ویکسین کی 61.5 ملین خوراکوں اور چھوٹے بچوں کی ویکسین کی 16 ملین خوراکوں کے عطیات دے چکی ہے۔ جولائی 2022 میں دونوں ممالک نے تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے “یو ایس پاکستان ہیلتھ ڈائیلاگ” کا آغاز کیا۔

امریکی حکومت کے تبادلے کے پروگراموں کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایلومنائی یعنی سابقہ شرکاء کی تعداد 37,000 سے زائد ہے جو کہ دنیا میں اِس نوعیت کے ایلومنائی کا سب سے بڑا گروپ ہے۔ اوپر تبادلے کے اِن پروگراموں کے کچھ سابق شرکاء نے 16 جولائی کو “پاکستان-یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک” (پی یو اے این) کی شمالی پاکستان کے شہر، گلگت شاخ کی ری یونین کی ایک تقریب میں سرکاری اور نجی شعبوں کے لیڈروں سے ملاقات کی۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن (بائیں) اور پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے نیویارک میں 18 مئی 2022 کو اپنی پہلی بالمشافہ ملاقات کے دوران موسمیات، سرمایہ کاری، تجارت اور عوامی سطح کے تعلقات میں شراکت کاری کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیرخارجہ نے اس ملاقات کو دونوں [وزرائے خارجہ] “کے لیے اُن بہت سے مسائل کے بارے میں بات کرنے کا ایک اہم موقع قرار دیا جن پر ہم مل کر کام کر رہے ہیں۔”