امریکہ دنیا کے لیڈر کی حیثیت سے اپنا کردار نبھائے گا اور فوری عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کو اکٹھا کرے گا۔

3 مارچ کو اپنی پہلی بڑی تقریر میں، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے عزم، اور ہر فرد کے وقار پر یقین سمیت، امریکی اقدار کی عکاسی کرے گی۔

انہوں نے کہا، “امریکہ کی بہترین بات یہ ہے کہ یہ ایک ایماندار، اصول پرست اور صاحب دل ملک ہے۔ یہی وہ کچھ ہے جو ہمیں فخرمند امریکی بناتا ہے اور اسی لیے دنیا بھر میں اتنے سارے لوگوں نے امریکی بننے کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے۔”

بلنکن نے سرحدوں کے آر پار پھیلتی ہوئی کووڈ-19 وبا اور آب و ہوا کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اِن مسائل کو حل کرنے کے لیے شراکت کاری کرے گا۔ انہوں نے کہا، ” آپ کی زندگیوں کو متاثر کرنے والا کوئی ایک بھی ایسا عالمی چیلنج نہیں ہے جس سے تنہا کوئی ملک نمٹ سکتا ہو۔”

جو چیلنج درپیش ہیں اُن میں کووڈ-19 وبا کے بعد ایک مضبوط تر اور زیادہ مشمولہ عالمی معیشت کی تعمیر اور کھلی حکومت کے ساتھ وابستگی کے ذریعے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آمریت پسندی کا مقابلہ کرنا شامل ہے۔ بلنکن نے کہا، “مجھے اس حقیقت سے اطمینان ہوتا ہے کہ ہم کھلے بندوں اپنی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ تکلیف دہ ہے۔ کبھی کبھی یہ بدصورت بھی ہوتا ہے۔ مگر یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم ترقی کرتے ہیں۔”

امریکی خارجہ پالیسی مندرجہ ذیل چیلنجوں سے بھی عہدہ بر آ ہوگی:-

  • کووڈ-19 کو روکنا اور صحت کی عالمی سلامتی کو مضبوط بنانا: بلنکن نے کہا کہ اس وقت تک مکمل طور پر کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا جب تک دنیا کی اکثریت میں اس کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہوجاتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ پوری دنیا میں ویکسین لگانے کی کوششوں میں مدد کرے گا۔
  • موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنا: امریکہ موجودہ نصف صدی تک یا اس سے پہلے مجموعی طور پر صفر اخراجوں کے لیے کی جانے والی عالمگیر کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ امریکہ کمزور ممالک کی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے تباہ کن اثرات کے خلاف  قوت برداشت کو بڑہانے اور نئے حالات سے موافقت پیدا کرنے میں مدد کرے گا۔
  • امیگریشن کے ایک انسان دوست اور موثر نظام کی تشکیل: بلنکن نے کہا کہ امریکہ کے مضبوط تر ہونے کی وجہ تارکین وطن ہیں۔ اپنی سرحدوں کو محفوظ بناتے ہوئے، امریکہ لوگوں کے اپنے ملکوں کو چھوڑنے کی وجوہات کا تدارک کرنے کی کوشش کرے گا۔
  • ٹکنالوجی کی حفاظت کرنا: جہاں مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور دیگر ٹکنالوجیاں ہماری زندگیوں میں انقلاب لا سکتی ہیں، وہیں اِن کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ٹکنالوجیاں رازداری کی حفاظت کریں اور دنیا کو زیادہ محفوظ بنائیں۔
  • چین کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا: اپنی تکنیکی، معاشی، اور فوجی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے چین کی حکومت مستحکم اور کھلے بین الاقوامی نظام کے لیے سنگین چیلنج کھڑے کر سکتی ہے۔ امریکہ شنجیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ہانگ کانگ میں جمہوری عملوں کو درپیش خطرات کے خلاف کھڑا ہے۔

بلنکن نے امریکہ کے اتحادوں کو “قیمتی اثاثے” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِن ترجیحات کو آگے بڑھانے کے لیے، امریکہ کو اپنی بین الاقوامی شراکت داریوں کو بہرصورت دوبارہ مضبوط بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، “اِن کے ساتھ ہم اتنے زیادہ کام کر سکتے ہیں جتنے ہم اِن کے بغیر نہیں کر سکتے۔ لہذا اس وقت ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ روابط قائم کرنے پر بہت محنت کر رہے ہیں – اور اُن شراکت داریوں کو دوبارہ استوار کرنے پر بھی جو برسوں پہلے تشکیل دی گئی تھیں۔”