امریکہ اپنے شراکت داروں کی غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے میں کیسے مدد کر رہا ہے

دو مختلف کشتیوں پر سوار لوگ ایک دوسرے کو پیکٹ دے رہے ہیں۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer 3rd Class John Hightower)
امریکی کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں اورگیانا ڈیفنس فورس کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں کی جنوری کی ایک تصویر۔ امریکی کوسٹ گارڈ اپنے شراکت داروں کی کی غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے میں مدد کر رہے ہیں۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer 3rd Class John Hightower)

امریکہ خوراک کی ترسیلوں کو محفوظ بنانے، مقامی معیشتوں میں بہتری لانے اور ماحولیاتی نظاموں کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر اپنے شراکت داروں کی غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے میں مدد کر رہا ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ نے حال ہی میں بحر الکاہل کے جزیرہ نما ممالک، مائیکرونیشیا کی ریاستوں کے وفاق، مارشل جزائر اور پلاؤ کی غیر قانونی، بلا اطلاع اور خلاف ضابطہ یا (آئی یو یو) ماہی گیری سے متعلق قوانین نافذ کرنے میں مدد کی۔ پلاؤ کے حکام کے مطابق اس مدد سے شراکت دار ممالک کو سمندری سکیورٹی کو بہتر بنانے اور لوگوں کی بنیادی خوراک یعنی مچھلیوں کے وسائل کو برقرار رکھنے میں مدد ملی۔

پلاؤ کی قومی سلامتی کی رابطہ کار، جینیفر اینسٹن نے کہا، ہم “اپنے اردگرد کی دنیا میں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل [ہونے کی] اپنی صلاحیت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔”

آئی یو یو ماہی گیری بالعموم ساحلی ریاستوں کے خود مختاری کے حقوق پر ایک قسم کا حملہ ہوتا ہے۔ یہ سمندری غذا کے ذخائر کو خطرات سے دوچار کرتی ہے، سائنسی بنیادوں پر مبنی ماہی گیری کے انتظام کو کمزور کرتی ہے اور قانونی پیداوار کنندگان کو معاشی نقصان پہنچاتی ہے۔ آئی یو یو ماہی گیری جبری مشقت میں بھی ملوث چلی آ رہی ہے۔

 مشترکہ مشقوں کے دوران بحری فوج کے جہاز کے سامنے ایک چھوٹی کشتی۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer 3rd Class John Hightower)
امریکی کوسٹ گارڈ کی سٹون نامی کٹر جنوری میں برازیل کے ساحل سے پرے برازیل کی بحریہ کے گوئبا نامی جہاز کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ (U.S. Coast Guard/Petty Officer 3rd Class John Hightower)

جولائی میں کوسٹ گارڈ نے آئی یو یو ماہی گیری کے خاتمے کے لیے ایک منصوبہ (پی ڈی ایف، ایم بی 6.20) جاری کیا جو دوسرے ممالک کی درخواستوں کے جواب میں غیر قانونی ماہی گیری سے نمٹنے کی خاطر تربیتی اور تکنیکی مدد کی ترجیحات طے کرتا ہے۔ یہ منصوبہ ستمبر 2020 کی اس حکمت عملی (پی ڈی ایف ، 5.13 ایم بی) کو نافذ کرتا ہے جس میں زیادہ اہدافی اور انٹیلی جنس پر مبنی نفاذ کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ بین الاقوامی تعاون کا تقاضہ کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر کوسٹ گارڈ نے بحر اوقیانوس میں غیر قانونی ماہی گیری سے نمٹنے کے لیے مارچ میں گیانا، برازیل، یوراگوئے اور پرتگال کے ساتھ شراکت داری کی۔ “آپریشن سدرن کراس” کے دوران امریکی عہدیداروں نے گیانا ڈیفنس فورس کے ساتھ ریڈیو کمیونیکیشن کی تکنیکوں کی مشق کی اور برازیلی افسروں کے ساتھ مل کر سمندری قانون نافذ کرنے کی مشقیں کیں۔

امریکی حکام نے ایکواڈور کے سرکاری وکیلوں کو آئی یو یو ماہی گیری سے متعلق قانون کے نفاذ کی تربیت بھی دی۔ جولائی میں  ایک سابق امریکی وکیل ایکواڈور کے سرکاری وکیلوں کی مدد کرنے کے لیے گالپاگوس جزائر گیا جہاں 2017 میں ایکواڈور نے 300 ٹن جنگلی حیات جس میں زیادہ تر شارک مچھلیاں تھیں، لے جانے والا ایک بحری جہاز اپنے قبضے میں لیا۔

لیما میں امریکی سفارت خانے نے غیر قانونی ماہی گیری سے پیرو کے خودمختار پانیوں سے محفوظ رکھنے کے حق میں سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کیا۔

نومبر 2020 میں ایکواڈور، پیرو، چلی اور کولمبیا نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں غیر قانونی ماہی گیری کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا گیا۔

جولائی میں امریکہ نے ہنڈوراس کو آئی یو یو ماہی گیری سے نمٹنے میں مدد کے لیے ایک گشتی کشتی بطورعطیہ دی۔ اس کشتی میں عملے کے 10 افراد کی گنجائش ہے اور اس میں ریڈار کا جدید نظام نصب ہے۔

کوسٹ گارڈ کے لیفٹیننٹ کمانڈر جیسن ہولسٹڈ نے جولائی میں آئی یو یو ماہی گیری کے خلاف بحر الکاہل کے جزیروں پر مشتمل ممالک کی کاوشوں میں امریکی تعاون سے متعلق ایک بیان میں کہا، ” اگر آئی یو یو ماہی گیری بلا روک ٹوک جاری رہی تو ہم کمزور ساحلی ریاستوں کے حالات بگڑنے اور غیرملکی ماہی گیر ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی توقع کر سکتے ہیں جس سے دنیا بھر میں جیو پولٹیکل استحکام کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔”