
وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی کا دفاع کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
بلنکن نے 12 مئی کو محکمہ خارجہ کی سال 2020 کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ کے اجراء کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “ہر ایک (انفرادی) انسانی حق کی طرح مذہبی آزادی کو بھی عالمگیر حیثیت حاصل ہے۔ تمام لوگوں کو، قطع نظر اس کے کہ وہ کہاں رہتے ہیں، کس پر یقین رکھتے ہیں، یا کس پر یقین نہیں رکھتے، اس (مذہبی آزادی) کا حق حاصل ہے۔”
بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں 200 کے قریب ممالک اور علاقوں میں مذہبی آزادی کی حیثیت کا ایک جامع جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کے ساتھ ساتھ مثبت سرکاری یا معاشرتی اقدامات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ رپورٹ امریکی خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے کرنے میں معاونت کرتی ہے۔
اپنی تقریر میں بلنکن نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کو لاحق خطرات کو مثالیں دے کر اجاگر کیا۔
پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق 56 ممالک میں رہنے والے لوگوں کو، یعنی دنیا کی آبادی کے ایک اکثریتی حصے کو مذہبی آزادیوں کے ضمن میں اونچے درجے سے لے کر کڑے درجے کی پابندیوں کا سامنا ہے۔

بلنکن نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ برما میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے لیڈروں کا شمار روہنگیا پر، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، مظالم ڈہانے والوں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں کرنے والی حکومتوں پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے درج ذیل زیادتیوں کا ذکر بھی کیا:-
- ایرانی لیڈر یہودیوں، عیسائیوں، بہائیوں اور زرتشتوں کے ساتھ ساتھ سنیوں اور صوفیوں کو بھی ہراساں کررہے ہیں۔
- روس انتہا پسندی کو بہانہ بنا کر گواہانِ یہووا اور مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں کر رہا ہے۔
- گو کہ سعودی عرب میں دس لاکھ سے زائد عیسائی آباد ہیں مگر وہاں پر ایک بھی عیسائی گھرجا گھر نہیں ہے۔
- عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے مذہبی اظہار کو جرم قرار دے رکھا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔ پی آر سی مسلمان ویغروں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف نسل کشی بھی کر رہا ہے۔
اپنے بیان میں بلنکن نے چانگڈو میں پی آر سی کے عہدیدار، یو ہیوئی پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے ویزے کی پابندیوں کا بھی اعلان کیا۔ ملحدانہ مذاہب کی روک تھام اور اُن سے نمٹنے کے نام ونہاد مرکزی قائدانہ گروپ کے دفتر کے سابق ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے، یو ہیوئی نے فالون گانگ کے پیروکاروں کو اپنے روحانی عقائد پر عمل کرنے پر من مانے طور پر حراست میں لیا۔
مارچ میں امریکہ اور امریکہ کے بین الاقوامی شراکت داروں نے اُن دو عہدیداروں پر بھی پابندیاں لگائیں جنہوں نے شنجیانگ میں ویغر مسلمانوں اور نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف جابرانہ پالیسیوں کو نافذ کیا۔
بلنکن نے کہا، “ہم دنیا بھر میں مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی نفرت اور روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے انسانی حقوق کے حامیوں اور مذہبی طبقات سمیت سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھیں گے۔”