امریکہ نے بحرہند و بحرالکاہل کو آزاد اور کھلا رکھنے کو یقینی بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔
21 جولائی کو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز میں تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع، مارک ایسپر نے کہا کہ امریکہ بحرہند و بحرالکاہل کی طویل عرصے سے قائم اُن شراکتوں کو مضبوط بنا رہا ہے جن کی بنیاد معاشی روابط اور مشترکہ اقدار پر ہے۔
ایسپر نے کہا، “اکٹھے مل کر ہمیں ہرصورت اِس آزاد اور کھلے نظام کو برقرار رکھنا چاہیے جس نے کروڑوں لوگوں کے امن اور خوشحالی کو محفوظ بنایا اور یہ نظام اُن اصولوں کا دفاع کرتا ہے جو اس امن اور خوشحالی کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔”
اِن اصولوں میں خودمختاری اور قوموں کی آزادی کا احترام، تنازعات کے پرامن حل، آزاد اور منصفانہ تجارت کا فروغ، اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری شامل ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی تنظیم (آسیان) کے لیڈروں نے جون 2019 میں “آسیان کا بحرہند و بحرالکاہل کے بارے میں نکتہ نظر” کے عنوان سے اپنے بیان میں انہی اصولوں میں شامل بہت سے اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ایسپر نے امریکہ کی بھارت کے ساتھ شراکت کو “21ویں صدی کے اہم ترین تعلقات میں سے ایک” قرار دیا اور بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ امریکی فوجی کاوشوں کو فروغ دینے کا خاکہ بیان کیا۔

20 جولائی کو شروع ہونے والے ہفتے میں امریکی بحریہ کے یو ایس ایس نمٹز سٹرائیک گروپ نے بحرہند میں بھارتی بحریہ کے ساتھ مل کر مشقیں کیں۔ ایسپر نے یہ بھی کہا کہ امریکہ تھائی لینڈ کی فوج کو جدید بنانے میں مدد کر رہا ہے، فلپائن کے ساتھ انسداد دہشت گردی اور سمندری سلامتی کے لیے تعاون کر رہا ہے، اور ملائشیا اور برونائی کا سمندری آگاہی کو بڑھانے میں ہاتھ بٹا رہا ہے۔ ستمبر 2019 میں ہونے والی آسیان اور امریکہ کی پہلی سمندری مشقوں سمیت، وسیع پیمانے پر کی جانے والی اِن کاوشوں کا شمار اُن کاوشوں میں ہوتا ہے جو خطے میں مدد کرنے کی خاطر کی جا رہی ہیں۔
بحرہند و بحرالکاہل میں مضبوط شراکتیں اس لیے وجود میں آ رہی ہیں کیونکہ بحیرہ جنوبی چین میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزیاں کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایسپر نے کہا کہ سی سی پی کی اس غنڈہ گردی سے آسیان ممالک کو سمندری تیل اور گیس کی ہونے والی ممکنہ آمدنی میں اندازاً 2.6 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور ماہی گیری کے اُن سمندری علاقوں تک رسائی کٹ کر رہ گئی ہے جن پر لاکھوں افراد انحصار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “گو کہ اس مشکل وقت میں امریکہ اور اس کے شراکت کاروں کی توجہ ایک دوسرے کی مدد کرنے پر مرکوز ہے مگر چینی کمیونسٹ پارٹی منظم انداز سے قانون شکنی، ڈراؤ دھمکاؤ اور بدنام کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔”