
امریکہ بحر ہند و بحرالکاہل کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ کووڈ-19 وبا سے لے کر آب و ہوا کے بحران تک تمام عالمی چیلنجوں سے نمٹا جا سکے۔
امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے 2 ستمبر کو یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے ابلاغ عامہ اور صحافت کے اینن برگ سکول کے عوامی سفارت کاری کے مرکز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کے “متحرک اور ترقی پذیر” ممالک کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا، “لوگ بعض اوقات بھول جاتے ہیں کہ امریکہ بھی بحرالکاہل کا ایک ملک ہے۔ ہم بحرالکاہل کی طاقت محض اپنے جغرافیہ کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اپنی معیشت، اپنی ثقافت، اپنی تاریخ اور ایشیا اور بحرالکاہل پر پھیلے اپنے اتحادوں اور شراکت داریوں کے مضبوط نیٹ ورک کی وجہ سے بحرالکاہل کی طاقت ہیں۔”
جدید چیلنجوں کے جواب میں، امریکہ اور بحرہند و بحرالکاہل کے شراکت دار ممالک مندرجہ ذیل کام کر رہے ہیں:-
- رسد کے زیادہ مضبوط سلسلے بنا رہے ہیں۔
- صحت کی عالمگیر سلامتی کو بہتر بنا رہے ہیں۔
- ملازمتیں اور مواقع پیدا کر رہے ہیں۔
- موسمیاتی بحران سے نمٹ رہے ہیں۔
One of the things that keeps me going is the opportunity to speak with young people. It was a pleasure to virtually connect with the students of @USC‘s Center on @PublicDiplomacy yesterday. I was proud to see their interest in the world and commitment to the mission of diplomacy. pic.twitter.com/OIK1DoIvfQ
— Wendy R. Sherman (@DeputySecState) September 3, 2021
ٹویٹ:
ایک چیز جو مجھے متحرک رکھتی ہے وہ نوجوانوں سے بات کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ یو ایس سی کے عوامی سفارت کاری کے مرکز کے طلبا کے ساتھ گذشتہ روز ورچوئل ملاقات کرنا میرے لیے خوشی کا باعث تھا۔ مجھے دنیا میں اُن کی دلچسپی اور سفارت کاری کے مشن کے ساتھ اُن کی وابستگی پر فخر ہے۔
— وینڈی آر شرمن، نائب وزیر خارجہ 3 ستمبر 2021
شرمن نے عالمی جنگوں، عالمگیر کساد بازاری اور 1918 میں پھوٹنے والی فلو کی وبا کے بعد آنے والے لمبے استحکام کا سہرا اقوام متحدہ اور عالمی بنک جیسے کثہرالجہتی اداروں کے سر باندھا اور کہا کہ امن اور استحکام کے لیے بین الاقوامی تعاون بدستور انتہائی اہم ہے۔
شرمن نے محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لیے قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کا بھی دفاع کیا۔
انہوں نے کہا، “انٹرنیٹ اور میدان جنگ میں بین الاقوامی تعلقات اور لین دینے کے معاملات اور تجارت کو چلانے کے لیے شفاف، مستقل متفقہ قوانین کے ایک مجموعہ کا ہونا ہی منصفانہ نظام کی درست تعریف ہے۔”
حالیہ مہینوں میں شرمن نے بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کا تفصیلی دورہ کیا۔ انہوں نے آب و ہوا کے بحران اور کووڈ-19 کے بعد معاشی بحالی سمیت مشترکہ ترجیحات طے کرنے کے لیے حال ہی میں تھائی لینڈ، انڈونیشیا، منگولیا، جاپان اور جمہوریہ کوریا سمیت مختلف ممالک کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔
2 ستمبر کی ملاقات میں، شرمن اور بھارت کے سیکریٹری خارجہ، ہرش وی شرنگلا نے کواڈ شراکت داری کے ذریعے بڑھتے ہوئے تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ گروپ جس میں آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں جمہوریت کے دفاع اور بحرہند و بحرالکاہلے کے خطے میں خوشحالی کے فروغ کا عزم کیے ہوئے ہے۔
بحرہند و بحرالکاہل کے پورے خطے میں کورونا وائرس کی محفوظ اور موثر ویکسینیں لگانے کی خاطر کواڈ کے رکن ممالک سال 2022 کے آخر تک کووڈ-19 ویکسین کی کم از کم ایک ارب خوراکیں تیار اور تقسیم کرنے کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
شرمن نے عوامی جمہوریہ چین [پی آر سی] کے دوسری قوموں پر دباؤ ڈالنے اور قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کی خلاف ورزی کرنے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت پی آر سی کے اُن رویوں کو چیلنج کرتی رہے گی جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مشترکہ اقدار کے منافی ہیں۔
شرمن نے مزید کہا کہ امریکہ جہاں ممکن ہوا وہاں ماحولیاتی بحران اور عالمگیر بنیادوں پر صحت کی حفاظت جیسے مسائل پر پی آر سی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان کا ماننا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ دوسرے ممالک امریکہ اور پی آر سی دونوں ممالک کے ساتھ شراکت داری کے خواہاں ہوں۔
شرمن نے کہا، “ہم [دوسرے] ممالک کو امریکہ اور چین میں کسی ایک کا انتخاب کرنے کا نہیں کہہ رہے۔”
انہوں نے یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران طلباء کو بتایا کہ عام طور پر کسی بھی قوم کے نوجوانوں کی ان چیلنجوں پر گہری نظر ہوتی ہے جن کا اُن کے ملکوں کو سامنا ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان سے کیسے نمٹنا ہے۔”
شرمن نے کہا، “آب و ہوا کی تبدیلی سے لے کر صحت عامہ تک اور نسلی اور صنفی مساوات سے لے کر انسانی حقوق تک، وہ مسائل جن کے بارے میں آپ میں سے بہت سے لوگ گہرے جذبات رکھتے ہیں، وہ ہماری سفارتی [ترجیحات] میں سرفہرست جگہ پاتے جا رہے ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ آنے والے کئی برسوں تک [انہیں یہ مقام] حاصل رہے گا۔”