
صدر بائیڈن نےکہا ہے کہ امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دنیا کے فوری حل کے متقاضی مسائل سے نمٹے گا۔
19 فروری کو میونخ کی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے آزاد ممالک کے درمیان مضبوط شراکت داریوں کو بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ایک بنیاد کی حیثیت سے سراہا۔ انہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ امریکہ شمالی بحراوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے اپنےاتحادیوں کے ساتھ کووڈ-19 کی وبا اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور بڑھتی ہوئی آمریت کا مقابلہ کرنے کی خاطر شراکت داری کرے گا۔
انہوں نے اپنی ورچوئل تقریر میں کہا، “ہمیں جو گونا گوں چیلنج درپیش ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ، یورپی یونین اور — روم سے لے کر ریگا تک — پورے براعظم پر پھیلے اپنے شراکت کاروں کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کرے گا۔ امریکہ اپنے نیٹو اتحاد کے بارے میں مکمل طور پر پُرعزم ہے۔”
بائیڈن نے مخففاً کوویکس کہلانے والے کووڈ-19 ویکسینوں کی عالمی رسائی کے پروگرام کے لیے دو ارب ڈالر کے عطیے کا اعلان کیا۔ کوویکس کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی کووڈ-19 وبا کے خلاف محفوظ اور موثر ویکسینوں تک رسائی میں مدد کرنے کی ایک بین الاقوامی کوشش ہے۔ صدر نے دو ارب ڈالر مزید عطیے کا بھی وعدہ کیا۔ تاہم یہ رقم دوسرے عطیات دہندگان کی طرف سے اپنے وعدے پورے کرنے سے مشروط ہے۔
As vice president, I worked closely with America’s democratic partners to advance our shared vision and values. As president, I’ll work with our partners and allies to defeat COVID-19 and advance peace and shared prosperity around the world.
America is back. pic.twitter.com/ZcrgonHh2N
— President Biden (@POTUS) February 19, 2021
ٹویٹ:
صدر بائیڈن
نائب صدر کی حیثیت سے اپنے مشترکہ نظریے اور اقدار کے فروغ کے لیے میں، امریکہ کے جمہوری شراکت کاروں کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کر چکا ہوں۔ دنیا بھر میں کووڈ-19 کو شکست دینے اور امن اور مشترکہ خوشحالی کے فروغ کے لیے میں، اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کروں گا۔
انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ایک غیرمعمولی منصوبے کے تحت معدنی ایندھنوں پر انحصار کم کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین ترین نتائج سے بچنے کی خاطر، امریکہ 19 فروری کو باضابطہ طور پر پیرس سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہوچکا ہے۔
انہوں نے اُن متعدد اضافی پیچیدہ چیلنجوں کا خاکہ بھی بیان کیا جن کا آزاد اقوام کو مل کر سامنا کرنا چاہیے۔ اُن میں دیگر کے علاوہ مندرجہ ذیل شامل ہیں:-
- ایسی تخلیقیت اور جدت طرازی کو تحفظ فراہم کرنا جس میں نظریات کا آزادانہ تبادلہ پروان چڑھتا ہے۔
- معاشی فوائد میں دوسروں کو وسیع پیمانے پر اور مساویانہ طور پر شامل کرنا۔
- چین کی معاشی بدعنوانی کا مقابلہ کرنا۔
- جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔
بائیڈن نے چینی حکومت کی معاشی دھونس دھاندلیوں، روسی ڈراؤ دھمکاؤ اور سائبر حملوں، اور مشرق وسطی میں ایرانی حکومت کی عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیوں کی طرف توجہ دلائی۔
انہوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کی جمہوری اقدار کے ساتھ وابستگی کو دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی مطلق العنانیت پر غلبہ پانے میں حاصل مرکزی حیثیت کو بیان کیا۔
بائیڈن نے کہا، ” ہم ایک ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس میں تمام قومیں کسی تشدد یا جبر کے خطرے کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے راستے کا تعین کرسکیں۔” امریکہ “اپنے حصے کا کام کرے گا۔ ہم اپنی مشترکہ اقدار کے لیے لڑیں گے۔ ہم تاریخ کے اس نئے لمحے کے چیلنجوں پر پورا اتریں گے۔ امریکہ واپس آ گیا ہے۔”