امریکہ دنیا بھر میں بیماریوں کا مقابلہ کیسے کرتا ہے۔

فرش پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا ایک گروپ (© Jerome Delay/AP Images)
ملاوی کے ایک گاؤں تومالی کے کے بچے 2019 میں ملاوی میں شروع کیے جانے والے پہلے پروگرام میں ملیریا کے خلاف دنیا کی پہلی ویکسین لگوانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (© Jerome Delay/AP Images)

امریکہ افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں ویکسین تک رسائی کو بہتر بنا رہا ہے، جس سے کووڈ-19 اور ایبولا اور ملیریا سمیت دیگر بیماریوں کے خلاف جنگ کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔

صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ویکسینوں کے استعمال سے ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں اور ہر عمر کے لوگوں کو لمبی اور صحت مند زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔ حفاظتی ٹیکوں سے خناق، تشنج، کالی کھانسی، انفلوئنزا اور خسرے جیسی بیماریوں سے ہونے والی 20 سے لے کر 30 لاکھ تک اموات کو روکا جاتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او 24 تا 30 اپریل تک منائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کے ہفتے کے دوران محفوظ اور موثر ویکسینوں کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ ذیل میں امریکہ اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے دنیا بھر میں حفاظتی ٹیکوں کو فروغ دینے کے طریقوں پر ایک نظر ڈالی گئی ہے۔

افریقہ میں ایبولا کو روکنا

دسمبر میں، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) نے امریکی دوا ساز فرم مرک اینڈ کمپنی کی ‘ ارویبو’ نامی ویکسین کا استعمال کرتے ہوئے 1,800 سے زیادہ لوگوں کو ایبولا کے مہلک وائرس کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے۔ اس مہم کی وجہ سےدو ماہ میں ایبولا کی وبا پر قابو پا لیا گیا۔ یاد رہے کہ ڈی آر سی میں 2018 میں ایبولا کی وبا دو سال تک جاری رہی۔

 پلاسٹک کی چادروں کے پیچھے حفاظتی لباس پہنے طبی اراکین کام کر رہے ہیں (© Jerome Delay/AP Images)
2019 میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے شہر بینی میں ایک طبی کارکن ایبولا کے مریض کا علاج کر رہا ہے۔ (© Jerome Delay/AP Images)

ڈبلیو ایچ او کے علاقائی ڈائریکٹر برائے افریقہ، ڈاکٹر میٹ شڈیسو موئیٹی نے 16 دسمبر کو بتایا، “پہلے کی نسبت بیماریوں کی زیادہ کڑی نگرانی، کمیونٹی کی شمولیت، ہدفی ویکسی نیشن اور فوری ردعمل کی وجہ سے خطے میں ایبولا پر قابو پانا پہلے سے زیادہ مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔”

پوری دنیا میں کووڈ-19 ویکسینوں کی فراہمی

دنیا بھر میں کووڈ-19 ویکسینوں کو مساویانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے امریکی حکومت کوویکس کے ساتھ شراکت کاری کر رہی ہے۔

صدر بائیڈن کے دنیا کو 1.2 ارب خوراکیں عطیہ کرنے کے وعدے کے تحت، امریکہ کوویکس اور دیگر شراکت کاریوں کے ذریعے 110 سے زائد ممالک کو کووڈ-19 کی 525 ملین سے زیادہ محفوظ اور موثر خوراکیں فراہم کر چکا ہے۔

 طبی کارکن ایک عورت کو ویکسین لگا رہے ہیں (© Odelyn Joseph/AP Images)
2021 میں پورٹ-او-پرنس، ہیٹی میں ایک خاتون کو کوویکس کے تحت فراہم کی جانے والی ماڈرنا کی کووڈ-19 ویکسین کا حفاظتی ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔ (© Odelyn Joseph/AP Images)

دسمبر میں امریکی دوا ساز کمپنی ‘ ماڈرنا ‘ نے ویکسین کے ‘ گاوی’ نامی اتحاد کی شراکت داری سے کوویکس کو اپنی میسنجر آر این اے کووڈ-19 ویکسین کی 150 ملین اضافی خوراکیں سب سے کم عالمی قیمتوں پر فراہم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔

دریں اثنا امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) اُن علاقوں کے لیے ویکسینیں حاصل کر رہا ہے جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یو ایس ایڈ کی زیرقیادت چلنے والے ‘ ویکسین تک عالمگیر رسائی’ کے پروگرام کے تحت ویکسینوں کو نلکیوں میں ڈالنا اور پھر ویکسین کے ٹیکے لگانے کے لیے مجفوظ درجہ حرارت پر ویکسینوں کو رکھنے، نقل و حمل اور ویکسینوں پر اعتماد سے جڑی مشکلات پر قابو پایا جا رہا ہے۔ اس دوران افریقہ کے زیریں صحارا کے خطے میں ویکسی نیشن کو بڑہانے پر خصوصی زور دیا جا رہا ہے۔

ملیریا کے انفیکشنوں میں کمی لانا

2 دسمبر 2021 کو امریکہ کی شراکت کار تنظیم ‘ گاوی’ نے دنیا میں ملیریا کی پہلی بار وسیع پیمانے پر دستیاب ‘ آر ٹی ایس/ایس’ نامی ویکسین کی خریداری کے لیے ابتدائی طور پر 155.7 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی منظوری دی۔ یہ ویکسین 2022 اور 2025 کے درمیان افریقہ کے زیریں صحارا کے ممالک میں استعمال کی جائے گی۔ ملیریا سے ہر سال 5 سال سے کم عمر کے 260,000 افریقی بچوں سمیت، چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوتے ہیں

عالمی صحت کے ساتھ طویل عرصے سے چلی آ رہی امریکی وابستگی نے برطانوی دوا ساز کمپنی، گلیکسو سمتھ کلائن کو امریکی غیر منفعتی تنظیموں کے ساتھ مل کر آر ٹی ایس/ایس ویکسین تیار کرنے میں معاونت کی ہے۔ امریکہ کی غیر منفعتی تنظیموں میں پاتھ نامی عوامی گروپ اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔

گاوی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر سیتھ برکلے نے 2 دسمبر کو ایک بیان میں کہا، “گاوی بورڈ کی جانب سے زیریں صحارا افریقہ کے ممالک کے لیے ملیریا کے حفاظتی ٹیکے لگانے کے نئے پروگرام کی مالی معاونت کے اس فیصلے سے افریقہ میں ہر سال دسیوں ہزار جانیں بچائیں جا سکیں گی۔”