امریکہ دنیا بھر میں محنت کشوں کے حقوق کی کس طرح حمایت کرتا ہے

کپاس کے ایک کھیت میں مزدور کپاس چن رہے ہیں (© Timur Karpov/AP Images)
امریکہ 2018ء میں ازبکستان میں کپاس چننے والے اِن جیسے محنت کشوں کے تحفظ میں مدد کرنے والی اقوام متحدہ کی محنت کی بین الاقوامی تنظیم کو فنڈ فراہم کرتا ہے۔ (© Timur Karpov/AP Images)

امریکہ دنیا بھر میں محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرنے اور بااختیار بنانے کے لیے دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظمیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

محنت کشوں کے بین الاقوامی گروپوں کی مدد کر کے اور تجارتی اور ترقیاتی پراجیکٹوں کو استعمال کرتے ہوئے، امریکہ دنیا کے بہت سے محنت کشوں کے لیے اُن کے حقوق کے تحفظ اور کام کرنے کے بہتر حالات میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن نے 19 اپریل کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں سبز روزگار کی اہمیت کے بارے میں اپنے خطاب میں ایسی سرمایہ کاری کی بھرپور حمایت کی جو “محنت کشوں کے حقوق کا احترام کرتی ہو [اور] مقامی آبادی کو عمل دخل کا اختیار دیتی ہو۔”

 اینٹونی بلنکن تقریر کر رہے ہیں (© Jacquelyn Martin/AP Images)
وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن 19 اپریل کو موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر تقریر کر رہے ہیں۔ (© Jacquelyn Martin/AP Images)

محنت کشوں کی مدد کرنے کے لیے امریکی کوششیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب بہت سی جگہوں پر محنت کشوں کے حقوق خطرات کی زد میں ہیں۔ دا سالیڈیرٹی سنٹر (یکجہتی کا مرکز) امریکہ میں قائم محنت کشوں کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2020 میں بہت سی حکومتوں اور آجروں نے انجمن سازی کی آزادی اور اجتماعی سودے بازی کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے کووڈ-19 کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔

امریکہ محنت کی بین الاقوامی تنظیم (آئی ایل او)  کو سب سے زیادہ فنڈ فراہم کرنے والا ملک ہے۔ آئی ایل او اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو محنت  کے بین الاقوامی معیارات طے کرتا ہے اور محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دیتا ہے۔ جنوری میں آئی ایل او نے اعلان کیا کہ ازبکستان کی کپاس کی صنعت میں مزدوری کے طریقوں پر تیسری پارٹی کی نگرانی کی حمایت سمیت، بین الاقوامی کوششوں نے محنت کشوں کے حقوق میں بہتری پیدا کی ہے اور بچوں سے کام کروانے اور جبری مشقت کے نظاماتی استعمال کو ختم کیا ہے۔

ازبکستان کی حکومت نے کپاس کی پیداوار کے کوٹے ختم کیے اور کاٹن چننے والوں کی اجرتوں کی شرح میں اچھا خاصا اضافہ کیا۔ گو کہ جبری مشقت کو بالکل ختم کرنے کی اور ازبکستانی محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید پیشرفت کی ابھی ضرورت ہے، تاہم اب تک اٹھائے جانے والے اقدامات حوصلہ افزا ہیں۔

ازبکستان کے محنت کشوں کی ایک متحرک سرگرم کارکن، دلشودہ شادمانووا نے آئی ایل او کو بتایا، “میں جب چھوٹی تھی تو ہمیں بدقسمتی سے کپاس چننے کی وجہ سے سکول سے بہت  ناغے  کرتے پڑتے تھے۔ آج اصلاحات کیوجہ سے میری بیٹی بغیر کسی ناغے کے سکول جا سکتی ہے اور تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔”

امریکہ دیگر ممالک میں محنت کشوں کے حقوق کو تقویت پہنچانے کی خاطر تجارتی سمجھوتوں سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ اکتوبر 2020 میں جارجیا نے جب پورے ملک میں بغیر اطلاع کے معائنے کرانے اور محنت کے بین الاقوامی معیاروں پر عمل کرنے کا قانون منظور کیا تو امریکہ کے تجارتی نمائندے نے اس حوالے سے جارجیا کا جائزہ لینے کا کام بند کر دیا۔

یہ جائزہ “امریکہ کے ترجیحات کے عمومی نظام” (جی ایس پی) پروگرام کے تحت لیا جا رہا تھا۔ جی ایس پی سے امریکہ کے لیے جارجیائی برآمدات کو حاصل مارکیٹ تک  ترجیحی رسائی  متاثر ہو سکتی تھی۔ جی ایس پی پروگرام کے تحت امریکہ کے ساتھ تجارت کرنے والے دوسرے ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر امریکی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوتی ہے تاکہ اِن ممالک میں ترقی  فروغ پا سکے۔

امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) بھی اپنے ‘محنت کے عالمی پروگرام’ (جی ایل پی) کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دیتا ہے۔ اس پروگرام کو یکجہتی مرکز کی شراکت داری سے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ جی ایل پی بنگلہ دیش، کمپوڈیا، کولمبیا، لائبیریا، مراکش اور یوکرین سمیت 30 سے زائد ممالک میں کام کرتا ہے۔

 ٹرک پر سوار محنت کشوں نے حفاظت کے لیے ٹرک پر لگے لوہے کے ڈنڈوں کو پکڑا ہوا ہے (© Heng Sinith/AP Images)
یو ایس ایڈ کا محنت کا عالمی پروگرام کمبوڈیا میں محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دیتا ہے۔ کمبوڈیا کے شہر نوم پن کے قریب یکم فروری کو کپڑے تیار کرنے والے کارکن ایک ٹرک پر سوار اپنے کام پر جا رہے ہیں۔ (© Heng Sinith/AP Images)

اس پروگرام کی مالی اعانت کی بدولت، یکجہتی مرکز نے کمبوڈیا میں مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام  کرتے ہوئے  ہوٹلوں اور جوئے خاتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے بہتر اجرت پر بات چیت کی اور کم سے کم اجرت کے لیے قانون سازی کی حمایت کی تاکہ اس قانون سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے۔ بنگلہ دیش میں جون 2020 میں، ملبوسات سازی کی صنعت کے دو ہزار سے زائد محنت کشوں نے ایک نیا معاہدہ کیا جس کے تحت انہیں اجتماعی سودے بازی کی اجازت ملی۔

امریکی حکومت ملک کے اندر بھی محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دیتی ہے۔ صدر بائیڈن نے 26 اپریل کو وفاقی پالیسیوں کے محنت کشوں کے تنظیم سازی اور اجتماعی سودے بازے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے وائٹ ہاؤس کی ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ نائب صدر کملا ہیرس اس کی سربراہی کریں گیں اور اس میں وفاقی اداروں کے سربراہ شامل ہیں۔

اس ٹاسک فورس کے قیام کے لیے جاری کیے جانے والے انتظامی حکم نامے میں بائیڈن نے کہا کہ یونین کی رکنیت سے اجرتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے کارکنوں کو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور ان کے روزگاروں کو تحفظ ملتا ہے۔ صدر نے مزید کہا، “یونین کی رکنیت سے کارکنوں کو یہ یقینی بنانے کے لیے صلاحیتیں پیدا کرنے کے وسائل میسر آتے ہیں کہ ان کی کام کی جگہوں پر، ان کی کمیونٹیوں میں اور ملک میں اُن کی آوازیں سنی جائیں گیں۔”