امریکہ زبانوں سے مالا مال ہے

نائب صدر ہیرس کلاس روم میں بچوں سے باتیں کر رہی ہیں (© Manuel Balce Ceneta/AP)
نائب صدر ہیرس جون 2021 میں واشنگٹن کے ایک سکول کے اپنے دورے کے دوران دو زبانیں بولنے والے طلباء اور ان کے استاد سے بات کر رہی ہیں۔ (© Manuel Balce Ceneta/AP)

مردم شماری کے بیورو کے مطابق حالیہ تین عشروں میں گھروں پر انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے والوں کی تعداد میں لگ بھگ تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تعداد 23.1 ملین (تقریباً 10 میں سے 1) سے بڑھ کر 67.8 ملین (5 میں سے 1) ہو چکی ہے۔

سرحدوں سے ماوراء مترجمین نامی غیرمنفعتی تنظیم کے مطابق امریکہ میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 350 اور 430 کے درمیان ہے۔ یہ تعداد امریکہ کو لسانی اعتبار سے دنیا کا متنوع ترین ملک بناتی ہے۔ اس تنظیم کے اعداد و شمار امریکہ کے مردم شماری کے بیورو کے “350 سے زیادہ زبانوں” کے تخمینے سے مطابقت رکھتے ہیں۔

امریکیوں کے حسب نسب کے سلسلے دنیا کے کسی نہ کسی حصے سے جڑے ہوئے ہیں اور بہت سے لوگ اُن علاقوں کی زبانیں بولتے ہیں جن علاقوں سے اُن کے آباؤ اجداد کا تعلق تھا۔

ایک تصویری خاکے کے ذریعے 1980 اور 2019 میں امریکہ میں دیگر زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد اور انگریزی بولنے والوں کی تعداد کا موازنہ انسانی شہیات کی شکل میں kیا گیا ہے  (State Dept./M. Gregory)
(State Dept./M. Gregory)

دوسرے الفاظ میں گوکہ امریکی آبادی کا سب سے بڑا حصہ (78.4%) گھر پر صرف انگریزی زبان بولتا ہے مگر امریکی گھرانوں کا ایک حصہ (21.6%) انگریزی کے علاوہ دوسری زبانیں بھی بولتا ہے اور اِس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ہسپانوی امریکہ میں سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں۔ لہذا اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ انگریزی کے بعد امریکی گھرانوں میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہسپانوی ہے۔ تقریباً 42 ملین افراد گھروں میں ہسپانوی زبان  بولتے ہیں (یہ تعداد انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے والوں کی مجموعی تعداد کا تقریباً دو تہائی ہے۔)

امریکی گھرانوں میں انگریزی کے علاوہ 2019 میں پانچ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں دکھانے والا بار چارٹ (State Dept./M. Gregory)
(State Dept./M. Gregory)

امریکی گھرانوں میں انگریزی کو چھوڑ کر سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی زبان سرفہرست ہے۔ چینی (3.49 ملین امریکی گھرانوں میں بولی جاتی ہے، یا اس نوعیت کے گھرانوں کی مجموعی تعداد کا 5.2% ہ) ہے جبکہ ٹیگالوگ (1.7 ملین، یا 2.6%)؛ ویت نامی (1.5 ملین، یا 2.3%)؛ اور عربی بولنے والوں کی تعداد (1.2 ملین، یا 1.9%) ہے۔

انگریزی کو مزید مضبوط بنانا

بولی جانے والی زبانوں میں اضافے سے امریکی انگریزی کو تقویت ملتی ہے جو “دیگر زبانوں سے مستعار لیے جانے الفاظ” کی بدولت مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی رہتی ہے۔ رائس یونیورسٹی کی لسانیات کی پروفیسر سوزن کیمر لکھتی ہیں کہ “یہ امر انگریزی بولنے والوں کی ثقافتی تاریخ کا حصہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اُن زبانوں سے مستعار لیے گئے الفاظ کو اپنایا ہے جن سے انہیں واسطہ پڑتا ہے۔”

میکسیکن کھانوں کی مقبولیت کی بدولت بہت سارے ہسپانوی الفاظ ایسے ہیں جو انگریزی بولنے والے روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی ریاستوں اور شہروں کو اکثر بزرگوں کے ہسپانوی زبان کے ناموں (سان فرانسسکو، سانتا کلارا وغیرہ) یا جغرافیائی خصوصیات کے ہسپانوی زبان کے نام دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی ریاست مونٹانا کا نام پہاڑ کے لیے ہسپانوی لفظ (“مونٹانا”) سے لیا گیا ہے جبکہ کیلی فورنیا کے شہر مونٹرے کا نام ایک ہسپانوی لفظ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جس کا مطلب “بادشاہ کا پہاڑ” ہے۔

روڈیو شو میں شامل ایک شخص گھوڑے سے گر رہا ہے (© John Locher/AP)
لاس ویگاس کے روڈیو شو میں ایک کاؤبوائے کو بپھرا ہوا گھوڑا نیچے پھینک رہا ہے۔ “روڈیو” انگریزی زبان میں داخل ہونے والا ہسپانوی لفظ ہے۔ (© John Locher/AP)

انگریزی کے لفظ ایلیگیٹر یعنی مگرمچھ [ہسپانوی زبان میں ایل گارتو یعنی چھپکلی کو کہتے ہیں] کی طرح “روڈیو” کا ماخذ بھی ہسپانوی زبان ہے۔ ہسپانوی زبان نے انگریزی کے ذخیرہ الفاظ میں بھی ایسے ہی الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ ہسپانوی الفاظ “بیراکُوڈا،” افیشاناڈو،” “پلازہ،” ٹینگو،” بونینزا،” “سیوی،” “کایوٹی،” اور “وجیلانٹے،” اس اضافے کی محض چند ایک مثالیں ہیں۔

ہسپانوی زبان کی طرح چینی زبان نے بھی انگریزی بولنے والوں کو کھانے سے متعلق الفاظ کی ایک کثیر تعداد فراہم کی ہے اور “گنگ ہو” (“جوش دکھانا”) اور “ٹائفون” جیسے الفاظ دیئے ہیں۔

امریکی بول چال کا لفظ “بُون ڈاکس”  (مختصراً “بوُنیز”) ٹیگالوگ زبان سے ہے جس میں “بُونڈاک” کا مطلب “پہاڑ” ہوتا ہے اور اسے اختصاراً دیہی یا پہاڑی علاقے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ویت نامی لفظ “فو” ایک روائتی سُوپ کا نام ہے اور انگریزی بولنے والے کھانوں کے شوقین اسے ہر جگہ استعمال کرتے ہیں۔

ہسپانوی اور چینی زبانوں کی طرح عربی نے بھی انگریزی زبان کو بہت سے الفاظ دیئے ہیں۔ “الجبرا،” “جیراف،” “صوفہ،” “ٹیرف،” “سفاری،” “الکیمی،” “گزیل،” “الکوحل،” “کاٹن،” “شوگر” اور “غول” جیسے عام طور پر استعمال ہونے والے یہ سب الفاظ عربی سے آئے ہیں۔