امریکہ شنجیانگ میں کروائی جانے والی جبری مشقت سے بچنے میں مدد کرتا ہے

Men tying down plastic sheeting next to farm equipment in a field. (© Mark Schiefelbein/AP Images)
امریکی حکومت کمپنیوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ اُن کے ترسیلی سلسلے شنجیانگ میں جبری مشقت میں معاونت نہ کریں۔ چینی حکومت نے غیرملکی صحافیوں کو شنجیانگ کا دورہ کرایا جس کے دوران انہیں کام کرتے ہوئے مزدور دکھائے گئے۔ (© Mark Schiefelbein/AP Images)

امریکی حکومت کاروباروں کو اپنے ترسیلی سلسلوں اور سرمایہ کاریوں کو شنجیانگ میں جبری مشقت یا انسانی حقوق کی پامالیوں کے خطرات سے بچانے میں مدد کرنے کی غرض سے رہنمائی میں وسعت لا رہی ہے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے  13 جولائی کے ایک بیان میں کہا، “شنجیانگ اور چین کے طول و عرض میں کمپنیوں کی جبری مشقت اور دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں کے پیش نظر، تازہ ترین ہدایت نامے میں اُن کاروباری اداروں کے لیے بڑہتے ہوئے خطرات کو اجاگر کیا گیا ہے جن کے ترسیلی سلسلے اور سرمایہ کاریاں شنجیانگ سے جڑی ہوئی ہیں۔”

محکمہ خارجہ اور دیگر پانچ امریکی اداروں نے 13 جولائی کو شنجیانگ میں کاروباروں کی ترسیلی رسد سے متعلق ہدایت نامہ “سنکیانگ سپلائی چین بزنس ایڈوائزری” (پی ڈی ایف، 697 کے بی) کے نام سے جاری کیا ہے۔ اس ہدایت نامے میں کاروباروں کو قانونی، معاشی اور عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) سے جڑی ترسیلی رسدوں سے منسلک شہرتی خطرات کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ اس ہدات نامے میں کہا گیا ہے کہ شنجیانگ سے اپنی مصنوعات حاصل کرنے والی کمپنیاں امریکی قانون کی خلاف ورزی کے خطرات مول لے رہی ہوتی ہیں۔

بلنکن نے اس ہدایت نامے کا تعلق شنجیانگ میں جبری مشقت، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی پر پی آر سی کو جوابدہ ٹھہرانے کی امریکہ اور بین الاقوامی شراکت داروں کی کوششوں سے جوڑا ہے۔

نئے ہدایت نامے سے یکم جولائی 2020 کو جاری کیے جان والے اصلی ہدایت نامے کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔

کم از کم مارچ 2017 سے پی آر سی نے ویغروں کے خلاف جبر کی ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ ویغروں کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ اس کے علاوہ شنجیانگ میں آباد  دیگر نسلی اور مذہی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی جبر کی اس مہم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

نئے ہدایت نامے میں یہ تنبیہہ کی گئی ہے کہ پی آر سی میں قائم کمپنیاں پی آر سی کے جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ اِن جرائم میں دس لاکھ سے زائد لوگوں کو حراستی کیمپوں میں قید کرنا اور وسیع پیمانے پر اُن کی نگرانی کرنا اور زراعت، کانکنی، قابل تجدید توانائی اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں سمیت سرکاری سرپرستی میں صنعتوں میں جبری مشقت کروانا بھی شامل ہے۔

امریکی حکومت نے شنجیانگ کی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے یا شنجیانگ میں بننے والی اشیا کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے رسدی سلسلوں اور کاروباری سودوں کا جائزہ لیں۔ حکومت نے کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ چین میں قائم اُن کمپنیوں کے ساتھ کام نہ کریں جو جبری مشقت سے کام لیتی ہیں، نگرانی کرنے والی کمپنیوں کو ٹکنالوجی فراہم کرتی ہیں یا ایسے اداروں کو مالی سہولیات فراہم کرتی ہیں جو ظلم وجبر میں معاونت کرتے ہیں۔

اس ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ کاروباروں، محققین، سرمایہ کاروں اور دیگر لوگوں کو “شنجیانگ کی انسانی حقوق کی پامالیوں کی مرتکب کمپنیوں یا افراد کے ساتھ جڑے ساکھ، معیشت اور قانون سے متعلق سنگین خطرات کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے۔”

اس ہدایت نامے میں نگرانی کے لیے استعمال کی جانے والی ٹکنالوجیوں کے ضمن میں مکمل احتیاط اور  پی آر سی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے باز رکھنے کے لیے امریکی حکومت کی کوششوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اِن میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پی آر سی کے عہدیداروں کے خلاف پابندیاں اور1930 کے محصولات کے قانون کی دفعہ 307 کا نفاذ بھی شامل ہے۔ اس دفعہ کے تحت ایسی مصنوعات کی درآمد کی ممانعت ہے جو جبری مشقت کے تحت تیار کی گئی ہوں۔