وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ عالمگیر امن، خوشحالی اور آزادی کو فروغ دینے اور ایک ایسی دنیا تعمیر کرنے کا عزم رکھتا ہے جہاں تمام ممالک اپنے راستے خود بنا سکیں۔
بلنکن نے واشنگٹن کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں 26 مئی کو اپنے اہم خطاب میں اُن اصولوں اور عالمی اداروں کے دفاع اور ان میں اصلاحات لانے کے لیے بائیڈن۔ہیرس انتظامیہ کے طریقِ کار کا خاکہ پیش کیا جنہوں نے دنیا میں انسانی حقوق اور قومی خودمختاری برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔
اس تقریر میں بلنکن نے کہا، ”ہمارا ہدف ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت فوری توجہ کے متقاضی مسائل سے نمٹ سکتی ہے، مواقع تخلیق کر سکتی ہے اور انسانی وقار کو فروغ دے سکتی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ ”مستقبل اُن کا ہے جو آزادی اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام ممالک کسی جبر کے بغیر اپنے راستے کا خود تعین کریں گے۔”
بلنکن نے اپنی تقریر میں یہ تصور پیش کیا کہ امریکہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کی جانب سے لاحق مسائل کا کیسے مقابلہ کرے گا۔
بلنکن نے کہا، ”چین واحد ایک ایسا ملک ہے جو نا صرف عالمی نظام کو نئی شکل دینا چاہتا ہے بلکہ اس مقصد کے لیے اس کے پاس معاشی، سفارتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کی طاقت بھی موجود ہے۔ بیجنگ کا تصور ہمیں اُن عالمگیر اقدار سے دور لے جائے گا جنہوں نے گزشتہ 75 برس میں دنیا میں ہونے والی اس قدر ترقی کو برقرار رکھا ہے۔”
انہوں ںے یوکرین پر حملے کے لیے روس کی فوج کے اجتماع کے دوران پی آر سی کے صدر شی جِن پھنگ کی جانب سے ولاڈیمیر پوٹن کے دفاع، سینکیانگ میں پی آر سی کی جانب سے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم، تبت کے لوگوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کے خلاف کریک ڈاؤن کا حوالہ دیا۔
انہوں ںے یہ بھی کہا کہ پی آر سی کی پالیسیاں اسے معاشی ترقی میں مدد دینے والے اُن اصولوں کو دوسرے ممالک کے لیے برقرار رکھ کر چین کی طرح فائدہ مند بنانے کے بجائے الٹا کمزور کرتی ہیں۔ بلنکن نے زور دے کر کہا کہ امریکہ پی آر سی کے ساتھ ”تنازع یا ایک نئی سرد جنگ” نہیں چاہتا، یا اس کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ اس کے بجائے امریکہ اور اس کے شراکت دار ایک ایسا مستقبل تشکیل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں جس سے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے۔
.@SecBlinken: We will defend and strengthen the international law, agreements, principles, and institutions that maintain peace and security, protect the rights of individuals and sovereign nations and make it possible for all countries to coexist and cooperate. pic.twitter.com/noMuIEwp2A
— Department of State (@StateDept) May 26, 2022
اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جہاں ممکن ہوا وہاں پی آر سی کے ساتھ شراکت میں کام کیا جائے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے 2021 میں گلاسگو میں امریکہ اور چین کے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیا جس کا مقصد میتھین اور کوئلے سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے باہمی کامیاب تعاون ممکن بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں عالمگیر غذائی قلت سے نمٹنے کے اقدامات بھی باہمی تعاون کا ایسا ہی موقع ہوں گے۔
بلنکن نے کہا، ”دنیا بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے بڑی طاقتوں سے اکٹھے مل کر کام کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے عظیم ملک پرامن انداز میں اکٹھے نہ رہ سکیں اور باہم مل کر انسانی ترقی میں اپنا حصہ نہ ڈال سکیں۔”
بلنکن نے کہا کہ ”امریکہ عالمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے یقینی طور پر بڑے چھوٹے تمام ممالک کے لیے یکساں مفید بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ اپنے لوگوں کے لیے کام کر رہا ہے، اپنی کوششوں کو ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے اور یکساں سطح پر مسابقت سے کام لے رہا ہے۔
امریکہ بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور تحقیق پر سرمایہ کاری کر کے مستقبل کی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے اپنی افرادی قوت کی اختراعی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس افرادی قوت میں چین سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ بھی شامل ہیں جو حصول تعلیم کے لیے امریکہ آئے اور پھر یہیں بس گئے۔
امریکہ۔ یورپی یونین کی کونسل برائے تجارت اور ٹیکنالوجی جیسی شراکتیں یہ یقینی بنا رہی ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی سے آمرانہ کے بجائے جمہوری اقدار کے فروغ میں مدد ملے۔ 23 مئی کو ٹوکیو میں صدر بائیڈن کی جانب سے شروع کیے جانے والے بحر ہند و بحرالکاہل معاشی فریم ورک برائے خوشحالی (آئی پی ای ایف) کا مقصد وسیع البنیاد معاشی ترقی کو فروغ دینا اور اکیسویں صدی کے عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے باہمی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ آئی پی ای ایف کے 13 بانی رکن ممالک عالمگیر معیشت کے 40 فیصد سے زیادہ حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
امریکہ کووڈ۔19 اور موسمیاتی بحران جیسے عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے کواڈ میں اپنے شراکت دار ممالک آسٹریلیا، بھارت اور جاپان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ ”ہم بیجنگ پر اعتبار نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی راہ تبدیل کر لے گا۔ اسی لیے ہم بیجنگ کے اردگرد ایسا تزویراتی ماحول تشکیل دیں گے جس سے ایک کُھلے اور جامع شراکتی عالمی نظام کے لیے ہمارے تصور کو فروغ ملے۔”