
ایک ایسے وقت جب عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کی طرف سے شنجیانگ میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین کی بین الاقوامی مذمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، امریکہ رسد کے عالمی سلسلوں میں جبری مشقت کو ختم کرنے کی کوششوں کو پھیلا رہا ہے۔
24 جون کو امریکہ کے کسٹمز اور سرحدی تحفظ کے محکمے (سی بی پی) نے شنجیانگ میں قائم چینی کمپنی کے خلاف “ود ہولڈ ریلیز آرڈر” (سامان کو روکنے کا حکم نامہ) جاری کیا ہے۔ اس حکم نامے کی بنیاد وہ شواہد ہیں جن کے مطابق “ہوشین سلیکون انڈسٹری کمپنی لمٹیڈ” نامی کمپنی سامان کی تیاری میں جبری مشقت استعمال کررہی ہے۔ اس حکم نامے کے تحت ہوشین کی سلیکون سے تیار کی جانے والی مصنوعات کی درآمد روک دی گئی ہے۔ سلیکون سولر پینلوں، الیکٹرونکس اور دیگر مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر الیخاندرو این مایورکاس نے کہا، “امریکہ اپنے رسدی سلسلے میں جدید دور کی غلامی برداشت نہیں کرے گا۔ سی بی پی کا حکم نامہ “انسانی حقوق اور محنت کشی کے بین الاقوامی معیاروں اور منصفانہ اور عالمگیر مسابقتی منڈی کے فروغ کے” ساتھ جڑے ہمارے عزم کا حصہ ہے۔
امریکہ اور دیگر 43 ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے نام ایک حالیہ بیان میں چین پر شنجیانگ میں آزاد مبصروں کو بلا روک ٹوک رسائی فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔ ان ممالک نے کہا کہ انہیں جبری مشقت سمیت خطے میں “انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں گہری تشویش ہے۔”
یہ مشترکہ بیان اقوام متحدہ میں کینیڈا کی سفیر، لیزلی ای نورٹن نے انسانی حقوق کی کونسل میں 22 جون کو پہنچایا۔ اس بیان میں دس لاکھ سے زائد افراد کی من مانی حراستوں، اور ویغروں اور دیگر مسلمان اقلیتی گروہوں کے لوگوں کی وسیع پیمانے پر نگرانی اور تشدد، جبری نس بندی اور دیگر ہتک آمیز سلوک کا حوالہ دیا گیا ہے۔
.@CBP, @CommerceGov, and @USDOL took action today to follow-up on our G7 commitment and address the People’s Republic of China’s use of forced labor in Xinjiang. https://t.co/Or67tMj7Jf
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) June 24, 2021
جبری مشقت سے باز رکھنے کی نئی امریکی کوششیں، صدر بائیڈن اور سات ممالک کے گروپ (جی 7) کے رہنماؤں کے عالمی رسدی سلسلوں سے جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی مصنوعات کو ہٹانے کے 13 جون کے عہد اور بیجنگ کی انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کی خاطر اٹھائے جانے والے دیگر اقدامات کے عہد کی پیروی کرتی ہیں۔ جی 7 ممالک میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
24 جون کو وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، “امریکہ کا ماننا ہے کہ شنجیانگ میں جبری مشقت، انسانی وقار کی ہتک ہے اور پی آر سی کے غیرمنصفانہ معاشی طریقوں کی ایک مثال ہے۔”
امریکہ کے محنت اور تجارت کے محکمے شنجیانگ میں جبری مشقت کو روکنے کے لیے سی بی پی کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ 24 جون کو محکمہ تجارت نے اپنی “اداروں کی فہرست” میں شنجیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کارپوریشنوں سمیت شنجیانگ میں جبری مشقت استعمال کرنے والی پانچ کمپنیوں کو شامل کیا۔ اس فہرست میں شامل یہ کمپنیاں اب خصوصی منظوری کے بغیر امریکی سافٹ ویئر، ٹکنالوجی یا دیگر اشیاء نہیں حاصل کر سکتیں۔
محکمہ محنت نے پی آر سی میں بنائی جانے والی پولی سلیکون کو “بچوں سے کرائی جانے والی مشقت یا جبری مشقت کے تحت تیار کی جانے والی اشیاء” کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں شامل اشیاء خریدنے والی کمپنیوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ایسا کر کے وہ جبری مشقت میں معاونت کرنے کا خطرہ مول لے رہی ہیں۔
یہ اقدامات امریکہ کی جانب سے پی آر سی کو جبری مشقت سے باز رکھنے کے لیے اٹھائے گئے ماضی کے اقدامات کو آگے بڑہاتے ہیں۔ سی بی پی کے اِن اقدامات کا تعلق شنجیانگ سے کپاس اور ٹماٹروں کی تمام مصنوعات کے امریکہ میں داخلے کو روکنے سے لے کر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث درجنوں کمپنیوں کو محکمہ محنت کی “اداروں کی فہرست” میں شامل کرنے تک سے ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 24 جون کو کہا، “ہم اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ پی آر سی حکومت کے جبری مشقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اِس (یعنی پی آر سی) کو جوابدہ ٹھہرانے پر کام کرنا جاری رکھیں گے۔ ہم پی آر سی کے جرائم کے فوری خاتمے اور نا انصافی کا سامنا کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے میں دنیا بھر میں موجود اپنے اتحادیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔”