رات کے وقت فضائی فوج کے جوان طبی سازوسامان طیارے پر لاد رہے ہیں۔ (U.S. Air Force/Technical Sergeant Rebeccah Woodrow)
امریکی فضائیہ کے جوان 20 مارچ کو جرمنی کے ریمشٹائن فضائی اڈے پر اٹلی بھجوانے کے لیے طبی سازوسامان طیارے پر لاد رہے ہیں۔ (U.S. Air Force/Technical Sergeant Rebeccah Woodrow)

عالمی صحت عامہ کے لیے امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک ہے۔ امریکہ ایچ آئی وی/ایڈز، ایبولا، ملیریا، اور اب کووِڈ-19 جیسی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سال اربوں ڈالر کے عطیات دیتا ہے۔

امریکہ ایسے میں بھی عالمی صحت عامہ سے متعلق اپنے عزم کے بارے میں ثابت قدم ہے جب وہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ووہان، چین میں کورونا وائرس پھیلنے سے متعلق بروقت اور درست معلومات فراہم کرنے میں ناکامی کی تحقیقات کررہا ہے۔

کووِڈ-19 کی عالمی وباء کا مقابلہ کرنے میں مدد کرنے کی خاطر امریکہ دنیا بھر کے ممالک کے لیے 775 ملین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کر چکا ہے۔ صحت، انسانی اور اقتصادی مقاصد کے لیے یہ ہنگامی امداد اُس مالیااتی امداد کے علاوہ ہے جو دنیا بھر میں لوگوں کی مدد کرنے والی کثیرالجہتی اور غیرمنفعتی تنظیموں یعنی این جی اوز کو پہلے ہی دی جا چکی ہے۔

ڈبلیو ایچ او مناسب ردعمل دینے میں ناکام رہا۔

جنوری میں ڈبلیو ایچ او چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے اِن دعووں کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا کہ وائرس ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک نہیں پھیل رہا اور اِس نے ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنے میں سستی سے کام لیا حالانکہ شواہد اس کے بالکل برعکس تھے۔

14 اپریل کو صدر ٹرمپ نے کہا، “اگر ڈبلیو ایچ او نے چین میں اپنے طبی ماہرین کو حقیقی صورت حال کا بامقصد جائزہ لینے کے لیے بھجوانے اور چین کی شفافیت کی عدم موجودگی کی طرف توجہ دلانے کے اپنے کام کیے ہوتے تو اس وباء پر موقعے پر ہی قابو پالیا جاتا اور اموات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی۔” انہوں نے یہ بات یہ اعلان کرتے ہوئے کہی کہ امریکہ ڈبلیو ایچ او کے لیے فنڈنگ کو مزید جائزہ لینے تک التوا میں رکھ رہا ہے۔

صدر نے کہا، “ادارے کے سرکردہ سرپرسست کی حیثیت سے امریکہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مکمل جوابدہی پر اصرار کرے۔” امریکہ ڈبلیو ایچ او کو ہر سال 500 ملین ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کرتا ہے۔

تصویری خاکہ جس پر یہ عبارت تحریر ہے: "امریکہ نے دنیا بھر میں کووِڈ-19 کا مقابلہ کرنے کے لیے 775 ملین ڈالر سے زائد کی رقم وقف کی ہے۔ (State Dept.)
(State Dept.)

اس امداد کا مقصد صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو مستحکم کرنے کی خاطر لیبارٹریوں کی تیاری اور طبی کارکنوں کو تربیت دے کر کورونا وائرس کی منتقلی کو روکنا ہے۔ امریکی امداد سے دنیا بھر کے ممالک کو مدد ملی ہے۔ (تازہ ترین جھلکیاں دیکھیے)

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے درست معلومات کے فوری اجراء سے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے طوفان کو روکا جا سکتا تھا۔ اس کے بجائے، 23 جنوری کو حتمی اعلان کرنے سے پہلے ڈبلیو ایچ او نے سی سی پی کے جھوٹے دعوؤں کو دہرایا اور وائرس کو بین الاقوامی تشویش کی حامل عوامی صحت کی ہنگامی حالت کا اعلان کرنے میں تاخیر کی۔

ایک طرف سی سی پی نے اس انتہائی اہم حقیقت کو دبا دیا کہ ووہان میں وباء انسانوں سے انسانوں میں منتقلی سے پھیل رہی تھی تو دوسری طرف تائیوان نے 31 دسمبر کو ہی ڈبلیو ایچ او کی توجہ اس تشویش کی جانب مبذول کرا دی تھی۔

اسی اثنا میں وُوہان میں وائرس کا جائزہ لینے کی 6 جنوری سے کی جانے والی امریکی پیش کشوں کو سی سی پی نے قبول کرنے سے انکار کیا اور اُن چینی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کی اور صحافیوں کو باہرنکالا جو تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس کے بارے میں حقائق فراہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پومپیو نے 14 اپریل کو ایک انٹرویو میں کہا، “ہمارا صحت کے عالمی ادارے سے یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنا کام کرے، اپنا بنیادی فرض پورا کرے جو کہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عالمی صحت کے میدان میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے بارے میں دنیا کے پاس درست، بروقت، موثر، حقیقی معلومات موجود ہوں۔ مگر وہ یہ کام نہیں کر پائے۔”