
امریکہ کی مردم شماری کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب اس میں جانسن اور سمتھ جیسے بہت سے ناموں کی جگہ لی، ژانگ اور نوئن جیسے ناموں نے لے لی ہے۔
حکومت ہر 10 سال کے بعد ملک کے ہر فرد کی گنتی کرتی ہے۔ اگرچہ لوگوں کی یہ گنتی بنیادی طور پر کانگریسی تعیناتیوں کے لیے کی جاتی ہے لیکن اس سے ملک میں آبادی سے متعلق آنے والے تبدیلیوں کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
ہر مردم شماری میں امریکی شہریوں کے ناموں کے عام ترین لاحقوں کے حوالے سے بہت سا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔ مجموعی طور پر ان میں سمتھ، جانسن، ولیمز، براؤن اور جونز سب سے زیادہ عام ہیں۔ لیکن عام ترین ایشیائی نام ”لی” بھی بہت بڑی تعداد میں ملتا ہے جس کا ناموں کی اس درجہ بندی میں 21 واں نمبر ہے جبکہ ایشیائی نام ”نوئن” 38ویں نمبر پر آتا ہے۔
امریکہ کے مردم شماری بیورو کے مطابق 2000 اور 2010 کے درمیانی عرصہ میں امریکہ میں عام ترین 1,000 ناموں میں جن لاحقوں کی تعداد میں تیزترین اضافہ ہوا ان میں زیادہ تر ایشیائی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں اب ژانگ نام والوں کی تعداد 111 فیصد، لِز نام والی خواتین کی تعداد 93 فیصد، لیوس نام والوں کی تعداد 66 فیصد اور خان نام والوں کی تعداد 63 فیصد بڑھ گئی ہے۔ (2020 کی مردم شماری کے حوالے سے یہ تجزیہ وباء کے باعث تاحال نہیں ہو سکا لیکن متوقع طور پر یہی صورتحال برقرار ہے۔)

2010 میں کثیرالنسلی پس منظر والے افراد سے ہٹ کر صرف ایشیائی امریکی ملک کی مجموعی آبادی کا 5.9 فیصد ہیںتھے یہ تعداد 2000 کے مقابلے میں 3.6 فیصد زیادہ ہے۔ 2000 سے 2010 کے درمیان ژانگ، لی، لیو اور خان کے ساتھ وانگ، ہوآنگ، لِن، سنگھ، چن، پٹیل اور وو جیسے ناموں میں بھی تیزترین رفتار سے اضافہ ہوا۔
بروکنگز انسٹیٹیوشن میں آبادی سے متعلق امور کے ماہر اور ‘تنوع کا دھماکہ: نئی نسلی آبادیاں امریکہ کو کیسے تبدیل کر رہی ہیں’ نامی کتاب کے مصنف ولیم فرے کا کہنا ہے کہ ”ہم نسلی اعتبار سے بہت زیادہ متنوع ملک بنتے جا رہے ہیں اور خاص طور پر نوجوان آبادی میں یہ رحجان واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔”
فرے کے مطابق بڑھتے ہوئے اس تنوع میں کسی حد تک تارکین وطن کی آمد کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ امریکہ میں آنے والے ایشیائی اور ہسپانوی تارکین وطن کی تعداد دیگر نسلی گروہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ایشیائی اور غیرہسپانوی سفید فام لوگوں سے برعکس ہسپانوی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں اونچی شرح پیدائش کا بھی یہ مطلب ہے کہ نوجوان نسل میں یہ تنوع خاص طور پر زیادہ ہے۔
فرے کا کہنا ہے کہ ”ہمارے پاس ایسی نوجوان آبادی ہے جو ہماری افرادی قوت کو مضبوط کرتی ہے۔ یہ تارکین وطن کے بچے اور اُن کے بچے ہیں جو ہمیں درکار عالمگیر روابط کے لیے کھلے اور قابل قبول ہیں۔”
رینڈ کارپوریشن سے تعلق رکھنے والے سابق ماہر آبادیات اور موریسن اینڈ ایسوسی ایٹ کے موجودہ سربراہ پیٹر اے موریسن کہتے ہیں کہ تارکین وطن اور ان کے ذریعے بڑھنے والی متنوع آبادی امریکہ کی داستان کا حصہ ہے۔
موریسن کا کہنا ہے کہ میساچوسیٹس میں ان کے علاقے نانٹوکٹ میں نیپالی پس منظر سے تعلق رکھنے والی متحرک آبادی ہے جبکہ ٹیکساس کے علاقے ڈلاس میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کر رہے ہیں جبکہ مسیسپی میں چین سے آنے والے تارکین وطن کی اگلی نسلیں آباد ہیں جنہوں ںے غلامی کے دور میں سیاہ فام افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کریانہ کی دکانیں کھولیں۔
موریسن کا کہنا ہے کہ ”آپ کو وراثتوں کا ایک مسلسل ارتقاء پذیر نمونہ ملتا ہے جو ایک مشترک رحجان کے حامل لوگوں کے ذریعے ہمارے آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ وہ رحجان کسی اور جگہ اچھی زندگی کی تلاش میں اپنی جائے پیدائش چھوڑنے کا عزم ہے”۔