امریکہ میں ایڈز کا عالمی دن اور ایڈز کے علاج کے امریکی پروگرام کی ‘شاندار’ پیشرفت [تصویری خاکہ]

نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایڈز کے علاج کے ایک عالمی پروگرام کی وجہ سے 18 ملین سے زائد افراد کی جانیں بچائی جا چکی ہیں۔

سفیر ڈیبرا ایل برکس اس پروگرام کی سربراہ ہیں جو “دا پریزیڈنٹس ایمرجنسی پلان فار ایڈز ریلیف” (پیپ فار) یعنی صدر کا ایڈز کا ہنگامی منصوبہ کہلاتا ہے۔ سفیر برکس نے 25 نومبر کو کہا کہ پیپ فار کے تحت وہ کچھ ہو رہا ہے جسے “آج سے 10 سال پہلے بہت سے لوگ ناممکن سمجھتے تھے۔”

پیپ فار کسی ایک مرض کے لیے کسی بھی ملک کی طرف سے کبھی بھی شروع کیا جانے والا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ برکس نے محکمہ خارجہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، “اس میں ہونے والی پیش رفت بہت شاندار ہے۔”

ایڈز کے علاج میں کامیابی کے اعداد و شمار۔ (State Dept.)
(State Dept.)

2003ء میں قائم کیے جانے والے پیپ فار کا مقصد ایسے ممالک میں علاح کی سہولتیں فراہم کرنا تھا جو دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی عالمی وبا شمار ہونے والی ایچ آئی وی/ایڈز سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔

ایچ آئی وی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں اعداد و شمار۔ (State Dept.)
(State Dept.)

انہوں نے کہا کہ کمبوڈیا، نمیبیا، بوٹسوانہ، ایتھیوپیا اور دیگر ممالک سمیت دنیا بھر کے ممالک اس عالمی وبار پر قابو پا رہے ہیں۔

پیپ فار کے ایچ آئی وی/ایڈز کو ختم کرنے کے کمیونٹیوں کے ساتھ کام کرنے کے طریقے کا دائرہ ڈریمز نامی پروگرام تک پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ پروگرام دنیا میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور اس میں توجہ تعلیم اور کمیونٹی کی شرکت پر مرکوز کی جاتی ہے۔

ڈریمز اُن صفاتی انگریزی الفاظ کا مخفف ہے جو صفات یہ پروگرام اِن عورتوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے یعنی پختہ ارادہ، لچک دار، با اختیار، ایڈز سے پاک، تربیت یافتہ اور محفوظ۔

پیپ فار کے حکام نے بتایا کہ ڈریمز پروگرام کے دائرہ کار میں آنے والے تمام کے تمام 86 ڈسٹرکٹ میں محض تین سال کے اندر پہلی مرتبہ ایچ آئی وی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پیپ فار کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ڈریمز کے تمام علاقوں میں نوجوان لڑکیوں اور جوان عورتوں میں ایچ آئی وی کی تشخیصوں میں 25 فیصد یا اس سے زائد کمی آئی ہے۔

برکس نے کہا کہ اس سال ایڈز کے عالمی دن کا مرکزی خیال “کمیونٹی بہ کمیونٹی وبا پر قابو پانا ہے۔ میرے خیال میں اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہم کیوں پیشرفت کر رہے ہیں۔”