امریکہ میں بھارتی طالبعلموں کی ریکارڈ تعداد

گریما شیکھر ایک عمارت کے سامنے کھڑی ہیں اور اُن کے پیچھے ایک سائن ہے جس پر
2022 کی اس تصویر میں دکھائی دینے والیں گریما شیکھر کا شمار اُن بہت سے بھارتی طالبعلموں میں ہوتا ہے جو تعلیم حاصل کرنے اور اپنا کیریئر بنانے کے لیے امریکی یونیورسٹیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ (Courtesy of Garima Shekhar)

گریما شیکھر ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اپنے آبائی وطن بھارت میں طلبا کی مدد کرنے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کر رہی ہیں تاکہ یہ طلبا مسقتبل میں اپنے پیشے کا انتخاب کر سکیں اور اپنی اعلٰی تعلیم کے حوالے سے درست فیصلہ کر سکیں۔

ممبئی سے تعلق رکھنے والیں شیکھر کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کہاں تعلیم حاصل کریں اور اس کے لیے انہوں نے امریکہ آنے کا فیصلہ کیا۔ آج کل وہ تعلیم کے شعبے میں ماسٹر کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ “میری رائے کے مطابق [امریکہ میں] دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔” انہوں نے کہا کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملنے پر “میں بہت مشکور ہوں۔”

گریما شیکھر کا شمار اُن ہزاروں بھارتی طالبعلموں میں ہوتا ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ 2022 میں امریکی حکومت نے بھارت کے طلباء کو تقریباً 125,000 ویزے جاری کیے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی طالبعلموں کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے۔

یہ پیشرفت کووڈ-19 وبا کے بعد غیرملکی طالبعلموں کی تعداد میں مسلسل اضافے کا پتہ بھی دیتی ہے۔

بین الاقوامی تعلیم کے انسٹی ٹیوٹ اور محکمہ خارجہ نے 2022 میں ایک رپورٹ جاری کی جس کا عنوان ‘بین الاقوامی تعلیمی تبادلے کی 2022 کی اوپن ڈورز رپورٹ‘ تھا۔ اِس رپورٹ کے مطابق 2021-2022 کے تعلیمی سال میں بھارت کے 199,182 طلباء نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی۔ یہ تعداد گزرے ہوئے تعلیمی سال کے مقابلے میں تقریباً 20% زیادہ تھی۔

نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کی ناظم الامور، پیٹریشیا لاسینا نے ستمبر میں کہا کہ بھارتی طلباء “ہمارے دونوں ممالک” کے لیے اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔ “وہ بین الاقوامی شراکت داری کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے اور اپنے امریکی ساتھیوں کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرتے ہیں اور عمربھر کے روابط استوار کرتے ہیں۔”

امریکی محکمہ خارجہ نے 175 سے زائد ممالک اور علاقوں میں بین الاقوامی طلباء کے لیے 430 سے زیادہ مشاورتی مراکز کا نیٹ ورک تشکیل دیا ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے EducationUSA  پر امریکہ میں تعلیمی مواقع کے بارے میں معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔

گو کہ بھارت میں انگریزی زبان وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے مگر پھر بھی بھارتی طلباء کو انگریزی زبان کی کلاسوں کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسے ملک میں آتے ہیں جہاں بھارت سے آئے ہوئے 4.5 ملین لوگ رہتے ہیں۔ متعدد بھارتی طلباء کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکہ کا انتخاب یہاں طلباء کی متنوع آبادی اور عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کی وجہ سے کیا ہے۔  ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی جانب سے کی گئی دنیا کی یونیورسٹیوں کی 2023 کی عالمی درجہ بندیوں کے مطابق امریکہ کی سولہ یونیورسٹیوں کا شمار دنیا کی چوٹی کی 25 یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔

پراناوی بائری ہندوستان کے روائتی لباس میں ملبوس ایک بڑے کمرے میں منعقد کی جانے والی نمائش میں (Courtesy of Pranavi Byri)
روائتی لباس میں ملبوس، پراناوی بائری ناردرن ورجنینیا کمیونٹی کالج میں ہندوستانی ثقافت کے بارے میں ایک نمائش کے موقع پر۔ (Courtesy of Pranavi Byri)

بعض بھارتی طلبا اپنی پیشہ ورانہ زندگی جاری رکھنے کے لیے امریکہ ہی میں رک گئے۔ اِن میں بہت سے ایسے ہیں جو آج امریکہ کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہ بن چکے ہیں۔ جبکہ بہت سے طالبعلم نئی مہارتیں اور نظریات لیے وطن واپس لوٹ جاتے ہیں۔

تلنگانہ ریاست کی پرانا بائری ناردرن ورجنینیا کمیونٹی کالج میں انڈر گریجوایٹ طالبہ ہیں اورچھوٹے بچوں کے ابتدائی تعلیم کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکی کالجوں میں نظریاتی سوچ کی نسبت عملی طور پر سیکھنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اُن کے پروفیسر حقیقی دنیا سے مثالیں دیتے ہیں۔ جب وہ بھارت جا کر چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے اپنے مراکز کھولیں گیں تو یہ مثالیں اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گیں۔

گریما شیکھر کو امید ہے کہ جب وہ وطن واپس لوٹیں گیں تو اُن کے اس کام سے بہت سے دوسرے طلباء کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہوں کہا کہ “مجھے لگتا ہے کہ میں بھارت کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہوں۔”