امریکہ میں لوگ کھیتوں اور سکولوں کالجوں میں، شہروں میں اور سڑکوں کے کناروں پر پودے لگا رہے ہیں تاکہ پالی نیٹرز یعنی تخم ریزی کرنے والے پتِنگوں اور پرندوں کو متوجہ کیا جا سکے اور ایسے مسکن بنائے جا سکیں جہاں یہ پتِنگے اور پرندے پھل پھول سکیں۔

تخم ریزی کرنے والوں میں شہد کی مکھیوں کے علاوہ کیڑے مکوڑے، پتنگے اور پرندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ کام کرنے والوں میں مختلف قسم کی مقامی طور پر پائی جانے والیں بھڑوں، مکھیوں، بھنوروں،  کیڑوں اور تتلیوں کے ساتھ ساتھ  پرندے اور چمگادڑوں جیسے چھوٹے قسم کے ممالیہ جانور بھی شامل ہیں۔ یہ سب ہمارے عالمی ماحولیاتی نظام اور بالخصوص زرعی پیداوار کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ 75 سے 95 فیصد تمام پھولدار پودوں اور فصلوں کو تخم ریزی کرنے والی مخلوق کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم ہر تین نوالے جو کھاتے ہیں اُن میں سے ایک کے لیے ہمیں اس مخلوق کا شکرگزار ہونا چاہیے۔

پھولوں کے درمیان اڑتا ہوا ایک شکرخور پرندہ (© Keneva Photography/Shutterstock.com)
شکرخور پرندے پھولدار پودوں کی تخم ریزی کی وجہ سے اہم ہوتے ہیں۔ (© Keneva Photography/Shutterstock.com)

اپنے سوئس والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کرسٹین گیمپرلی 1999 سے سیریز، کیلی فورنیا میں باداموں کے باغ لگائے ہوئے ہیں۔ 10 برس قبل ایک کانفرنس میں گیمپرلی کو شہد کی مکھیوں کی بستیوں کی تباہی سے جڑے مسائل کے حلوں سے معلوم ہوا کہ اُس وقت کیا ہوتا ہے جب محنت کش شہد کی مکھیاں اپنے چھتے اور ملکہ مکھی کو پیچھے چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔

ایک مکھی پھول سے تخم اکٹھا کر رہی ہے (© Amber Barnes)
گرین سویٹ نامی مکھی کا شمار شمالی امریکہ میں پائی جانے والی مکھیوں کی 4,000 اقسام میں ہوتا ہے۔ (© Amber Barnes)

اس تباہی کو روکنے کے لیے گیمپرلی نے اپنے باداموں کے سب باغوں میں چھوٹے چھوٹے پھولدار پودے لگانے شروع کر دیئے تاکہ تخم٘ ریزی کے عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس میں وہ سرسوں کے پودے اور سہ شاخے پودے باری باری لگاتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے شہد کی مکھیوں کے لیے مفید طریقے بھی اختیار کیے جن میں کیڑے مار دواؤں کا کم استعمال بھی شامل تھا۔

اور یہ طریقے کامیاب رہے۔ زیادہ سے زیادہ تتلیاں، مقامی مکھیاں، بھنورے اور پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اُن کے باغوں میں آنے لگے۔

انہوں نے بتایا کہ “میں گزشتہ 25 برس سے یہاں رہ رہی ہوں مگر میں نے مونارک قسم کی تتلی یہاں کبھی نہیں دیکھی۔ گزشتہ برس ہمیں یہاں پانچ مرتبہ یہ تتلیاں دکھائی دیں۔”

تخم ریزی کرنے والے کیڑوں مکوڑوں، پتِنگوں اور پرندوں کے لیے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے سے ہماری پیداوار میں اضافہ ہوا، کیڑے مار دواؤں پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوئے اور مقامی ماحول بہتر ہوئے۔ گیمپرلی نے بتایا کہ “زمین کی جتنی اچھی حالت اب ہے اتنی اچھی حالت پہلے کبھی نہیں تھی”

گیمپرلی نے  اپنے گھر کے صحن  مین سہہ شاخے پودے اور جنگلی پھول لگا کر تخم ریزی کرنے والے پرندوں  کے لیے مفید بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ “یہ اب خوبصورت لگتا ہے۔ اب مجھے شہد کی مکھیوں سمیت دیگر مکھیوں  کی ایسی انواع دیکھنے کو مل رہی ہیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔”

تیز سے تیز تر ہوتی  تحریک

باغیچے میں کھِلے پھول (© Mark Starrett)
ورمونٹ یونیورسٹی کے کیمپس میں تخم ریزی کرنے والوں کے لیے مفید پودے لگائے گئے ہیں۔ (© Mark Starrett)

گیمپرلی اس کام میں اکیلی نہیں ہیں۔ ہزاروں امریکی پالینیٹروں یونی تخم ریزی کرنے والوں کے لیے پودے لگا رہے ہیں۔

ریڈ لیورز غیرسرکاری تنظیم ‘پالینیٹر پارٹنرشپ’ سے منسلک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کی تنظیم نے دو لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو بحال کرنے میں کسانوں کی مدد کی ہے۔ (اب نہ صرف امریکہ میں بلکہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں پہلے سے زیادہ لوگ اس تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں۔)

زراعت سے ہٹ کر بات کی جائے تو سرکاری اہلکار اور رہائشی شہری علاقوں میں، کالجوں کے کیمپسوں پر اور بڑی اور بین الریاستی شاہراہوں جیسے سرکاری مقامات کے ساتھ ساتھ پالینیٹروں کے لیے پودے لگائے جا رہے ہیں۔

غیرمنفعتی تنظیم ایکسرسیز سوسائٹی کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس کا نام Bee City USA [بی سٹی یو ایس اے] ہے۔    لورا روسٹ اس ادارے میں کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 46 ریاستوں میں واقع  182 شہر اور 166 یونیورسٹیوں کے کیمپس (پورٹو ریکو کا علاقہ اورر واشنگٹن کا شہر اس کے علاوہ ہیں) شہد کی مکھیوں کے لیے دوستانہ ماحول کے معیار پر پورا اترے جانے کی ہمارے غیرمنفعتی ادارے کی جانب سے تصدیق کیے جانے کے منتظر ہیں۔

فروسٹ نے یہ بھی بتایا کہ دو سال کی مدت میں بی سٹی سے منسلکہ اداروں نے 3,800 ایکڑ رقبے پر مسکنوں کے 2,500 پراجیکٹ مکمل کیے۔ پالینیٹروں کے لیے ماحول کے تحفظ کے اس کام میں دس لاکھ لوگ شامل ہوئے۔ مضافات میں رہنے والوں کو ماحول دوست باغوں کی کم دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے اور اِن باغوں سے تخم ریزی کرنے والے جانوروں کو مدد ملتی ہے۔

لیورز کہتے ہیں کہ ” پالینیٹروں کے لیے مفید زیادہ تعداد میں پودے لگانے سے [پالینیٹروں] کو زیادہ محفوظ جگہیں میسر آتی ہیں  اور غذائیت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے بچوں کی پرورش کے لیے زیادہ وسائل میسر آتے ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے والوں کے خلاف تحفظ میسر آتا ہے۔”

کھیتوں سے لے کر سکولوں کالجوں کے کیمپسوں تک امریکیوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد باغوں، صحنوں، پھلدار باغوں اور سرکاری جگہوں ایسے پودے لگا رہی ہے جو شہد کی مکھیوں کے لیے مفید ہیں۔