جس طرح دنیا کے ہر خطے سے تارکین وطن امریکہ آتے ہیں اسی طرح پاکستان سے آنے والوں نے بھی اپنے نئے وطن میں مختلف قسم کے کاروباروں میں قدم رکھے۔ ذیل میں تین حالیہ کامیابیوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں:-
بے گھر لوگوں کو کھانا کھلانا
قاضی منان اپنے دل میں واشنگٹن میں بے گھر لوگوں کو کھانا کھلانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2014ء میں ‘سکینہ حلال گرل’ کے نام سے ایک ریستوران کھولا۔ ان کے ریستوران میں بے گھری کا سامنا کرنے والا کوئی بھی شخص گرما گرم کھانا مفت لے سکتا ہے۔ اگر کوئی کھانے کے پیسے ادا کر سکتا ہو تو وہ اپنے کھانے کی ادائیگی کرتا ہے۔
تاہم جب حالیہ وبا کے دوران اُن کے ہاں عام گاہک آنا بند ہوگئے تو قاضی منان کو اپنے ریستوران کو تالہ لگانا پڑا۔ جب انہیں یہ دکھائی دیا کہ شاید انہیں مستقل طور پر ریستوران بند کرنا پڑے تو اِن کے ایک دوست نے کاروبار جاری رکھنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی تجویز دی۔
چند ہی دنوں کے اندر چندہ دینے والوں نے ابتدائی طور پر مقرر کردہ ہدف سے دوگنا زیادہ چندہ دینے کے وعدے کیے۔ دنیا بھر کے لوگوں نے اس ریستوران کو کھلا رکھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا تاکہ قاضی منان ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا جاری رکھ سکیں۔
عطیات کی وجہ سے سکینہ حلال گرل گرم کھانے کے سب ضرورت مندوں کے لیے کھلا ہوا ہے۔ قاضی منان چاہتے ہیں کہ اُن سے متاثر ہوکر دوسرے لوگ بھی امریکہ کی 50 ریاستوں اور دنیا بھر میں اسی طرح کے ریستوران کھولیں اور اس کا آغاز اِن کے آبائی ملک پاکستان سے ہو۔
انہوں نے کہا، “یہ محض ایک ریستوران نہیں بلکہ ایک مشن ہے۔ میں اُن علاقوں کے دیگر ریستورانوں کو” کمزور ترین افراد کی مدد کرنے “پر قائل کرنا چاہتا ہوں جہاں بے گھر افراد کی بہت بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔”
کیفے کے ذریعے ثقافتوں کا میل
خالدہ بروہی نے پاکستان میں غیرت کے نام پر ہلاکتوں کے خلاف آواز اٹھانے پر داد پائی۔ انہیں “فوربز” رسالے نے ان کی سماجی کاروباری نظامت کاری پر “30 انڈر 30” یعنی 30 برس سے کم 30 کامیاب افراد کی اپنی فہرست میں دو مرتبہ شامل کرکے خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے علاوہ وہ 2014ء میں ایم آئی ٹی کے لیب ڈائریکٹر کی فیلو بھی رہ چکی ہیں۔
خالدہ بروہی کی “سگھڑ” کے نام سے قائم غیرسرکاری تنظیم، قبائلی اور دیہاتی آبادیوں میں رہنے والی لڑکیوں اور عورتوں کو با اختیار بناتی ہے تاکہ وہ عورتوں کے حقوق کی لیڈر بن سکیں۔
خالدہ بروہی کا تعلق پاکستان کے ایک مقامی قبیلے، بروہی سے ہے۔ انہوں نے 16 برس کی عمر میں “سگھڑ” کی بنیاد اُس وقت رکھی جب اُن کی ایک سہیلی کو شادی کے بغیر ایک آدمی سے محبت کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا۔
خالدہ بروہی نے 2015ء میں ایک ٹیڈ ٹاک کے دوران کہا، “ایک ایسا رواج جو کسی کی جان لے لے میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ مجھے احساس تھا کہ اس کے بارے میں اب کی بار مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ میں اکیلے میں سسکیاں بھرتے بھرتے سونا نہیں چاہتی تھی۔ میں — اس کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی تھی — جو کچھ بھی مجھ سے بن سکے۔”
انہوں نے امریکہ میں بھی جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں، نیا سماجی کاروبار شروع کیا۔
انہوں نے “چائے سپاٹ” کے نام سے ریستورانوں کا ایک نیا کاروبار شروع کیا جو امریکیوں کو پاکستانی ثقافت سے متعارف کراتا ہے۔ یہ ریستوران نیویارک اور ریاست ایریزونا کے شہر سیڈونا میں واقع ہیں۔ خالدہ بروہی اپنے ریستورانوں سے ہونے والے منافعے کی آدھی رقم پاکستان کے دیہاتی علاقوں کی عورتوں کے لیے سکالر شپس اور امداد کی شکل میں عطیے کے طور پر دیتی ہیں۔
جوتوں کی فروخت اور لوگوں کی مدد
سدرہ قاسم اور وقاص علی جب پاکستان کے شہر اوکاڑہ میں ملے تو انہوں نے اکٹھے مل کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا خواب دیکھا۔ 2012ء میں انہوں نے مارخور کے نام سے چمڑے کے بنے ہوئے ڈریس شوز بیچنے والی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ جوتے اُن کے شہر سے تعلق رکھنے والے ماہر کاریگر تیار کرتے تھے۔
2015ء میں ان دونوں کو امریکہ میں “وائی کمبینیٹر ایکسلریٹر پروگرام” میں شامل کیا گیا۔ یہ امریکہ کا نجی سرمایہ کاری کا ایک پروگرام ہے جس کا مقصد سدرہ قاسم اور وقاص علی کی کمپنی جیسی نئی کمپنیوں کی مدد کرنا ہے۔ اس کے بعد یہ دونوں کیلی فورنیا منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اپنے ہاں تیار ہونے والے جوتوں کے ڈیزائنوں پر کام کرنا جاری رکھا۔
سدرہ قاسم نے 2020ء کے ایک انٹرویو میں کہا، “زبان کاوٹ تھی، پس منظر رکاوٹ تھا، نہ پیسہ، نہ تعلیم — یہ تمام رکاوٹیں تھیں۔ مگر ہم حیرت انگیز طور پر خوش قسمت ثابت ہوئے۔”
کیلی فورنیا میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے سلیکون ویلی کے کارکنوں کے گھومنے پھرنے کے طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد، “ایٹمز” کے نام سے جوتوں کی ایک اور کمپنی بنانے کا پروگرام بنایا۔ سدرہ قاسم اور وقاص علی نے 2018ء میں اپنی کاروباری سرگرمیاں نیویارک سٹی منتقل کر دیں۔ یہاں پر انہوں نے خصوصی دعوت ناموں کے ذریعے اپنی ویب سائٹ تک رسائی کو بیچنا شروع کیا۔
انہوں نے کامیابی سے 40,000 افراد کی ایک ویٹنگ لسٹ (انتظار کرنے والوں کی ایک فہرست) تیار کی۔ اس قسم کی مقبولیت کے ساتھ، یہ جوڑا سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور 2019ء میں اپنے خوردہ کاروبار کو عوامی طور پر شروع کرنے میں کامیاب رہا۔
وقاص علی نے کہا، “حتمی خواہش ایٹمز کو ایک ایسی کمپنی میں ڈھالنا ہے جو اہمیت کی حامل ہو۔ اس کا تعلق صرف زبردست قسم کا مال تیار کرنے سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ ہم اسے بار بار کیسے کر سکتے ہیں اور اسے خوب سے خوب تر کیسے کر سکتے ہیں۔”