امریکہ میں دوڑنا: ایک مقبول مشغلہ اور تفریح

آپ کو یہ لوگ شہر کی سڑکوں پر، جنگلی تفریح گاہوں میں اور مضافاتی علاقوں میں، ہر جگہ نظر آئیں گے۔

کچھ لوگ تیز بھاگتے ہیں اور کچھ  جاگنگ کہلانے والی سست رفتاری سے بھاگتے ہیں۔ یہ رحجان پورے امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ سپورٹس اینڈ فٹنس انڈسٹری ایسوسی ایشن کے اندازے کے مطابق امریکہ میں 4 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ لوگ دوڑتے اور جاگنگ کرتے ہیں جن میں نصف سے زیادہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور دوڑ لگاتے ہیں۔

ان میں بعض آدھی یا مکمل میراتھن کے لیے مشق کر تے ہیں۔ دیگر اپنے جسم کو بہتر بنانے یا اپنا چند پاؤنڈ وزن کم کرنے کی خاطر دوڑ لگاتے ہیں۔

ریس میں شریک مردوں کا ایک گروپ سب سے آگے۔ (© AP Images)
ریاست مین میں ریس کے شرکاء 10 کلومیٹر کی دوڑ کا آغاز کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

اس کے علاوہ دیگر واضح علامتیں بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوڑنے والے ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ کھیلوں کی دکانیں دوڑ میں استعمال ہونے والے جوتوں، لباس اور الیکٹرانک آلات سے بھری ہوتی ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ دوڑنے والے کتنی تیزی سے اور کتنا فاصلے طے کر چکے ہیں۔ کاروں کے پچھلے حصے پر ایسے چھوٹے چھوٹے اشتہار چسپاں دکھائی دیتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کار کا مالک کتنے فاصلے تک دوڑ لگا چکا ہے۔ ان پر ‘پانچ کے’ (5 کلومیٹر) سے لے کر میراتھن میں ‘26.2’ میل (42 کلومیٹر) دوڑ کا فاصلہ لکھا ہوتا ہے۔

تو امریکہ اتنی بڑی تعداد میں دوڑنے والے لوگوں کا ملک کب بنا؟ 1970 کی دہائی میں متعدد واقعات نے دوڑ کے جنون میں اضافہ کیا۔ اس دوران امریکہ میں دوڑ کے میدان میں بہت سے ہیرو سامنے آئے۔


گولڈ میڈل جیتنا

فرینک شارٹر، مسکراتے ہوئے۔ (© AP Images)

1972 میں فرینک شارٹر نے اولمپک کھیلوں کے میراتھن مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتا۔ ییل یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ اس کھلاڑی نے 1976 میں سلور میڈل بھی جیتا۔

بڑے میراتھن مقابلے

بِل راجرز، گریٹا ویٹز اور البرٹو سالازار جیت کے ہار اور اپنے ناموں کی پٹیاں پہنے ہوئے۔ (© AP Images)

شارٹر کے بعد اُن کے امریکی ہموطنوں، بل راجرز اور البرٹو سالازار نے بھی کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے 1970 کی دہائی کے اواخر اور 1980 کے اوائل میں بوسٹن اور نیویارک سٹی کی مشہور میراتھن دوڑیں جیتیں۔

خواتین کی آمد

جون بینوایٹ تمغہ پہنے اور مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا رہی ہیں۔ (© AP Images)

امریکی خواتین کی اپنی میراتھن ہیروز بھی تھیں۔ جون بینوایٹ نے 1979 اور 1983 میں بوسٹن میراتھن جیتیں۔ بنیوایٹ نے 1984 میں اولمپک میراتھن میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یہ پہلے اولمپک کھیل تھے جن میں خواتین کو طویل فاصلے کی  دوڑ میں حصہ لینے کی اجازت ملی تھی۔ (آج بوسٹن میراتھن میں قریباً نصف تعداد خواتین کھلاڑیوں کی ہوتی ہے۔)

تفریحی دوڑ

جِم فِکس کی تصویر۔ (© AP Images)

1977 میں جم فِکس کی ‘ دوڑنے کی مکمل کتاب’ کے عنوان سے لکھی  جانے والی کتاب شائع ہوئی جس نے ہیجان برپا کر دیا، یہ کتاب کئی ماہ تک سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل رہی۔ فِکس نے اپنی کتاب میں بتایا کہ باقاعدگی سے بھاگنے اور ورزش کرنے والے لوگوں کو جسمانی کھچاؤ اور ذہنی تناؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ (افسوس کی بات یہ ہے کہ فِکس کا بذات خود 52 سال کی عمر میں دوڑتے ہوئے انتقال ہوا۔ تاہم بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کے خاندان میں دل کی بیماری پائی جاتی تھی۔)

سڑکوں پر دوڑیں

دوڑ میں حصہ لینے والا ایک گروپ سڑک پر۔ (© AP Images)

1990 سے 2013 تک سڑکوں پر تفریحاً دوڑنے والوں کی تعداد 5 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ گئی۔ گزشتہ چند برسوں میں اس تعداد میں قدرے کمی آئی ہے مگر ‘ فورچون میگزین’ کا اب بھی یہ اندازہ ہے کہ دوڑنے کی صنعت کی مالیت 1.4 ارب ڈالر تک ہے۔

تمام تصاویر:  © AP Images کی ملکیت ہیں۔


دوڑنے والے بہت سی دوڑوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ 2015 میں امریکہ میں دوڑنے کے مقابلوں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔

آج کل، دوڑ کے مقابلوں کے شرکاء کی کسی مقبول خیراتی کام کے لیے چندہ جمع کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ریس میں شرکت کی فیس کا کچھ حصہ عطیہ کر دیا جاتا ہے یا دوڑ کے بڑے مقابلوں میں خیراتی مقاصد کے لیے دوڑنے والے شرکاء کی جگہ مخصوص کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2015 میں بوسٹن میراتھن میں دوڑنے والوں نے خیراتی کاموں کے لیے 3 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم اکٹھی کی۔

ایک جاگر خاتون پل کے قریب سے گزرتے ہوئے۔(© AP Images)
ایک خاتون طلوع آفتاب کے وقت واشنگٹن کے آرلنگٹن میموریل برِج کے قریب دوڑتے ہوئے۔ (© AP Images)

امریکہ میں دوڑنے والوں میں کون لوگ شامل ہیں؟ پہلی بات یہ کہ ان میں خواتین بھی ہو سکتی ہیں۔ 2015 میں دوڑ میں حصہ لینے والوں میں 57 فیصد خواتین تھیں۔ یہ تعداد تقریباً 97 لاکھ بنتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ دوڑنے والے شخص کی عمر 25 سے 44 سال کے درمیان ہو سکتی ہے۔

عام معیار سے ہٹ کر دیکھا جائے تو دوڑنے والوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ باقاعدگی سے دوڑنے والوں میں قریباً 20 فیصد کی عمر 6 سے 17 برس کے درمیان ہوتی ہے۔ ‘گرلز آن دی رن’ جیسے  دوڑنے والے گروپوں نے 10 لاکھ سے زیادہ نوعمر لڑکیوں کو دوڑ کے ذریعے صحت مند اور پُرلطف طرز زندگی اپنانے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔

ایک بات طے ہے کہ امریکہ میں دوڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

یہ مضمون فری لانس لکھاری،  فریڈ بووین نے تحریر کیا۔