امریکہ میں ہائی سکولوں کے سائنسی میلے طلبا کے لیے ایک اہم فورم ہیں۔ انہوں نے سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی (مخففاً سٹیم) میں جو کچھ سیکھا ہوتا ہے اُسے اِن میلوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اپنی تخلیقیت کو آزمانے کا موقع ملتا ہے۔
طالبعلموں نے سٹیم مضامین میں جو کچھ پڑھا ہوتا ہے، سائنسی میلوں میں انہیں اُس کا اختراعی طریقوں سے اطلاق کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مقامی اور علاقائی سطح ہر دو دہائیوں تک مڈل اور ہائی سکول کے سائنسی میلوں میں جج کے طور پر کام کرنے والی، ہرشینی مکنڈن نے بتایا کہ طالبا اس کی شروعات اپنے تجسس سے کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں معاشرے کے سنگین مسائل کے حل ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
مکنڈن لاس الموس کی قومی تجربہ گاہ میں مائیکرو بیالوجسٹ ہیں اور اس تجربہ گاہ کے کیمیا کے ڈویژن میں ایک گروپ کی نائب سربراہ ہیں۔ مکنڈن نے کہا، “ہر بچہ جس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے اُسکو انفرادی طور پر اختیار کرتا ہے اور اس کا انتخاب کرتا اور اُس طرح اُس کی تحقیق کرتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے۔ سائنسی تجسس کا آغاز کم عمری میں ہوتا ہے اور میرا خیال ہے اس کی حقیقی معنوں میں پرورش اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔”
جب طلبا کلاس میں حیاتیات، کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ کرتے ہیں اور ٹرگنومیٹری اور کیلکولس جیسے تصورات کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ان مضامین کو استعمال کرنے والے حقیقی زندگی کے حالات کا تصور کرنا مشکل ہے۔
Courtesy of the IF/THEN® Collection. © 2020 Orange Capital Media. All rights reserved.
سائنس میلوں سے طلباء کو سٹیم میں سیکھی ہوئی چیزوں کو حقیقی زندگی میں لاگو کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ (مسائل) کا حل ڈھونڈنے کے لیے سائنسی میلوں کا نتیجہ مختلف مضامین کے ایک جگہ پر اکٹھا ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ مکنڈن نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ زبان کی اچھی مہارتیں سیکھنا، ججوں کے سامنے کسی پراجیکٹ کو مناسب طریقے سے پیش کرنے اور اس کے نتائج کو بیان کرنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔
مکنڈن نے کہا، “ہم چھوٹے چھوٹے بلبلوں میں رہتے ہیں اور حقیقی زندگی میں بلبلوں کا ایک جگہ جمع ہونا ہوتا ہے۔”
مکنڈن متعدی بیماریوں کی تیارکی جانی والی تشخیصوں پر تحقیق کرتی ہیں۔ اس میں سامنے آنے والی متعدی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ اُن کی پیشہ وارانہ زندگی بچپن میں پیدا ہونے والی دلچسپی کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ انہیں بچپن میں کن پیڑے اور خاندان میں قریبی رشتہ داروں کو خسرہ اور چیچک کی بیماریاں لگیں۔
وہ بھارت میں پلی بڑھیں اور وہاں وہ سائنسی میلوں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ وہ اِن میلوں کو بعض خاص قسم کے مسائل کو حل کرنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنے کے لیے استعمال کیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنسی میلے اُن اسباق کا اطلاق کرنے میں پیش آنے والے مسائل کے بارے میں طلبا کی غیر روائتی انداز میں سوچنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
چاہے طلبا کا رجحان آرٹس اور بشریات کے مضامین کی طرف ہی کیوں نہ ہو مگر مکنڈن تمام طلبا کو سائنس کے بارے میں غور کرنے کی ترغیب دیتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں، “سائنس بھی ایک آرٹ ہے۔ اس میں بہت سی تخلیقیت شامل ہے۔ یہ تخیل، اور جدت طرازی اور ہنرمندی اور نئے نظریات ے بھرپور ہے۔”