امریکہ میں سائنس کیسے کام کرتی ہے

(State Dept./Doug Thompson)
(State Dept./Doug Thompson)

انسانی صحت میں بہتری، تحفظ ماحول اور قومی سلامتی یقینی بنانے کے سلسلے میں دنیا کے بعض بہت بڑے مسائل سائنس کے ذریعے حل کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کو شفاف اور شراکتی نوعیت کا ہونا چاہیے۔

امریکہ میں سائنس دان جس کشادہ ماحول میں کام کرتے ہیں وہ امریکی معاشرے کی کشادگی کا آئینہ دار ہے۔ یہ شفاف ماحول دنیا بھر سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔

مزید برآں امریکہ میں کام کرنے والے متنوع سائنس دانوں کی صلاحیتیں بامعنی اشتراک کو پروان چڑہاتی ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں ماہر معاشیات اور تحقیق پر اشتراک کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے رچرڈ فری مین کا کہنا ہے، ”یہ بہت بڑی بات ہے کہ بیرونی ممالک سے لوگ امریکہ آنے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں انتہائی مثبت سائنسی ماحول پایا جاتا ہے۔ آپ کے پاس بہت سے گوناگوں پس منظروں کے حامل اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے امریکی سائنس کو مضبوط بنانے میں مدد ملی ہے۔”

بعض ممالک میں تحقیقی عمل کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ”آسٹریلین سٹریٹجک پالیسی انسٹیٹیوٹ” میں” انٹرنیشنل سائبر پالیسی سنٹر” کے تحقیق کار ایلیکس جوسک کہتے ہیں، ”جب کام کسی ایسے  بند نظام میں کیے جاتے ہیں جہاں مناسب جانچ  پڑتال کا فقدان ہو اور پوری سائنسی برادری اپنی رائے نہ  دے سکے تو پھر آپ اخلاقیات اور نگرانی جیسے  ہر طرح کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔” اس سے بھی بڑھ کر ”اگر تحقیق کی سمت کو انتہائی سختی سے کنٹرول کیا جائے  تو اس میں تخلیقیت اور نئے تصورات کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔”

ذیل میں پانچ ایسے طرز ہائے عمل بیان کیے گئے ہیں جن کے ذریعے امریکی سائنسی ماحول نئی دریافتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے:

اشتراک

Two people looking in a light bulb (State Dept./D. Thompson)

امریکہ  کی ”نیشنل سائنس فاؤنڈیشن” کے جاری کردہ 2018 کے اعدادوشمار کی رو سے امریکہ میں عالمگیر اشتراک کی شرح 37 فیصد رہی جو کہ 2006 میں 12 فیصد تھی۔

ہارورڈ میں فری مین کی تحقیق سے پتہ چلا کہ تحقیقی اشتراکات جتنے زیادہ متنوع ہوں گے تجربات پر  اُن کے اتنے ہی زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔ 2014 میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں فری مین اور ان کے ساتھی وی ہوآنگ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جہاں محققین کے نسلی اعتبار سے جتنے زیادہ  متنوع  پس منظر کے حامل ساتھی  تحقیق کاروں نے اکٹھے مل کر کام کیا، وہاں شائع ہونے والے تحقیقی کام کے دیئے جانے والے حوالوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

فری مین کہتے ہیں ”ہو سکتا ہے کہ مقالے کا معیار بہت اچھا نہ ہو مگر یہ بہت سے لوگوں کی نظروں سے گزرتا ہے اور ایسا ہونا بذات خود ایک اچھی بات ہے۔” مقالےپر اس  اضافی توجہ کا مطلب یہ ہے کہ دیگر سائنس دانوں کی جانب سے بھی دوبارہ ایسے تجربے یا اس تحقیق کے نتائج کو مزید پھیلانے کی کوشش کے جانے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔

تحقیق کے لیے سرکاری فنڈنگ

امریکہ کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2018 سے متعلق جاری کردہ انہی اعدادوشمار کی رو سے بنیادی تحقیق کے میدان میں سب سے زیادہ فنڈ بدستور امریکی حکومت کی جانب سے آت رہے ہیں جو کہ مجموعی مالی وسائل کا 44 فیصد ہے۔

”یونیورسٹی آف پنسلوینیا ”کے پروفیسر مائیکل ویزبرگ کی تحقیق سائنسی فلسفے پر مرکوز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”اس ملک میں تحقیق کے لیے سرکاری وسائل سے متعلق نمونے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس سے چند لوگوں تک محدود اور بنیادی نوعیت کے سوالات کا جواب ڈھونڈنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر یہ کام نجی وسائل کے ذریعے ہوتا تو ہم کبھی بھی اُس قسم کی تحقیق نہ کر پاتے جو ہم کرتے ہیں۔”

ویزبرگ کہتے ہیں چونکہ بنیادی سائنس کے لیے مالی وسائل بڑی حد تک ٹیکس دہندگان، مالی وسائل مہیا کرنے والے  ”یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن” جیسے حکومتی اداروں سے آتے ہیں لہذا وفاقی مالی امداد کے لیے درخواست دینے والے تحقیق کاروں کو اپنی تجاویز میں یہ دکھانا ہوتا ہے کہ ان کے کام کے ‘وسیع اثرات’ ہوں گے  یا کسی خاص تحقیقی منصوبے میں سماجی فوائد کے امکانات موجود ہیں۔ اس سے سائنس دانوں کی ذمہ دار شہری ہوتے ہوئے سائنسی علم کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

کھلی سائنس

Man with open notebook under microscope (State Dept./D. Thompson)

”سنٹر فار اوپن سائنس” کے سربراہ برائن نوزیک کے مطابق ”کھلی سائنس دراصل سائنسی طریقہ کار کا شفاف اور جامع عمل ہے جو اس مقصد کے لیے آن لائن ذرائع مہیا کرتا ہے۔ ”اگر آپ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ میں نے اپنے مشاہدے سے نتائج کیسے اخذ کیے ہیں تو پھر آپ ان نتائج کو دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان پر اعتراض کر سکتے ہیں۔”

بہت سے اقدامات میں عالمگیر تحقیقی اشتراک شامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ‘اوپن سورس ملیریا’ کا مقصد ملیریا کے لیے نئی ادویات تیار کرنا ہے۔ دنیا بھر سے سیکڑوں حصہ دار اپنے خیالات اور معلومات کے تبادلے کے لیے اس کا آن لائن پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔ 2016 میں اس کنسورشیم  نے انسداد ملیریا کے ایسے ممکنہ مرکبات پر ایک مقالہ شائع کیا جسے سات ممالک سے تعلق رکھنے والے 50 سے زیادہ مصنفین نے تحریر کیا تھا۔

”یونیورسٹی کالج لندن” میں ادویہ کی دریافت کے شعبے کے سربراہ اور اوپن سورس ملیریا کے بانی میتھیو ٹوڈ کہتے ہیں ”اس طرح کُھلے انداز میں کام کرنا واقعتاً خوشگوار طور پر حیران کن تجربہ ہے کیونکہ آپ ایسے لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں جن سے آپ کبھی نہیں ملے ہوتے اور جو حیرت انگیز مہارتوں کے مالک ہوتے ہیں۔”

ہمسر جائزہ اور اشاعت

جب سائنس دان دریافتیں کرتے ہیں تو وہ اپنے مسودے سائنسی جرائد میں اشاعت کے لیے بھیجتے ہیں یہ مقالے ہمسر جائزے کے عمل سے گزرتے ہیں جس میں اسی جیسی تحقیق سے وابستہ دیگر سائنس دان اس کام کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمسر جائزے کے اس عمل میں کامیاب قرار پانے والے مسودے اس سائنسی جریدے میں شائع ہوتے ہیں جسے متعلقہ سائنس دان نے بھیجا ہوتا ہے۔

امریکہ میں سائنسی جرائد بڑی حد تک اپنا مواد مفت فراہم کرتے ہیں۔ (اشاعتی لاگت عموماً مصنف، تجربہ گاہ یا معاون ادارہ ادا کرتا ہے۔) مثال کے طور پر ”سائنس” میگزین شائع کرنے والی ”امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس” نے 2015 میں ”سائنس ایڈونچر” نامی جریدہ شروع کیا تھا جسے ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔

2500 سے زیادہ سائنسی جرائد شائع کرنے والے ادارے ‘ایلسویئر” میں عالمگیر حکمت عملی سے متعلق شعبے کی نائب صدر گیما ہرش بتاتی ہیں کہ ادارے کے تمام جرائد تک اب کھلی رسائی کا انتخاب موجود ہے اور ان کی مجموعی تعداد کے  10 فیصد تک مکمل طور پر عام رسائی دی گئی ہے۔

عوام سے رابطہ

امریکہ میں سائنس دان خود کو اپنی تحقیق عوام تک پہنچانے کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔

ویزبرگ کہتے ہیں ”آپ دیکھیں کہ اس پر زیادہ سے زیادہ سنجیدہ توجہ دی گئی ہے۔” وہ سماجی سطح پر سائنسی اقدامات اور وسطی یا ثانوی سکول کے اساتذہ کے ساتھ رضاکارانہ کام کا حوالہ دیتے ہیں جس کا مقصد انہیں اپنے طلبہ کے لیے بہتر اسباق تیار کرنے میں مدد دینا ہے۔

مثال کے طور پر ”یونیورسٹی آف پنسلوینیا” نے ایک دفتر محققین کو اپنا کام آگے پھیلانے کے ٹھوس طریقے تلاش کرنے میں مدد دینے کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔

ویزبرگ کا کہنا ہے کہ ”جس قدر زیادہ لوگ یہ جاننے میں لگے ہوں کہ سائنس کیسے کام کرتی ہے، خواہ وہ زیادہ سائنسی حقائق سے واقف نہ  بھی ہوں بلکہ انہیں صرف سائنس کے ظاہری عمل اور سائنسی طریقہ ہائے کار کے  بارے میں ہی سمجھ بوجھ ہو، وہ سائنس سے متعلق ناقدانہ سوچ کے حوالے سے اتنے ہی زیادہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔”

یہ مضمون فری لانس مصنفہ لنڈا وانگ نے تحریر کیا۔