امریکہ میں منگل’ سپْر‘ کیوں ہوگا

سپر منگل کے مقابلے کا گول شکل کا تصویری خاکہ۔ (© Shutterstock)
(© Shutterstock)

امریکی صدارتی دوڑ 3 مارچ کو نئے مرحلے میں داخل ہو گی۔ یہ آگ بجھانے والے پانی کے نل سے پانی پینے اور چائے کی چسکیاں لینے میں فرق کے مترادف ہے۔

فروری میں ووٹ ڈالنے والی چار چھوٹی ریاستوں میں انتخابی مہم چلانے والے امیدواروں کی یہ دوڑ اب درجن سے زائد ریاستوں میں داخل ہو جائے گی جہاں اس دن یعنی منگل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

نومبر میں صدارت کے لیے ہونے والے انتخابات کے لیے دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس اپنے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے لیے نامزدگیوں کے قریب ترہو جائیں گی۔ کیونکہ صدر ٹرمپ دوبارہ صدارتی الیکشن کی دوڑ میں ہیں، لہذا کچھ ریاستیں اس سال ری پبلیکن پارٹی کے لیے پرائمری یعنی بنیادی جمہوری رائے دہندگی کے عمل میں حصہ نہیں لے رہیں۔ لیکن دوسری طرف ابھی بھی چھ امیدوارڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے میدان میں موجود ہیں ۔ (آزاد اور سیاسی جماعتوں کے امیدوار نومبر میں ہونے والے انتخاب میں حصہ لینے کی اہلیت کے لیے اس سے مختلف آزمائشوں سے گزریں گے۔)

3 مارچ کا دن چودہ ریاستوں میں ہونے والے الیکشن کے پیش نظر ’سپر منگل ‘کے طور پر جانا جائے گا۔ امریکی علاقے سمووا اور بیرون ملک رہنے والے ڈیموکریٹس بھی ان انتخابات میں شریک ہوں گے۔ اعداد و شمار اور رفتار کے حوالے سے یہ نتائج اہم ہوں گے۔ پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے امکان میں اضافے کے لیے امیدوار موسم گرما میں ہونے والے ڈیموکریٹک کنونشن میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں مندوبین کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مجموعی مندوبین کی ایک تہائی سے زیادہ تعداد ’سپر منگل‘ کو داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اب تک ہونے والے چار بنیادی جمہوری انتخابات اور سیاسی جماعتوں سے جڑے گروہوں کی حمایت سے مجموعی طور پر 155 مندوبین منتخب ہوئے ہیں جو 3 مارچ کے مقابلوں میں حصہ لینے والی بعض ریاستوں سے منتخب ہونے والے مندوبین کی کسی ایک ریاست کی انفرادی تعداد سے بھی کم ہیں۔

دی ایمپرفیکٹ پرائمری” نامی کتاب کی مصنفہ اور یونیورسٹی آف ایریزونا میں حکومتی امور کی پروفیسر باربرا نورینڈر کہتی ہیں، ” امید واروں کے لیے اس حوالے سے یہ پہلا بڑا امتحان ہے کہ وہ ملکی سطح پر اپنی مہم کو کیسے چلاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر کرے گا کہ آیا انہیں ملک گیر حمایت حاصل ہے کہ نہیں۔”

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مہینوں پر پھیلے ہوئے امیدواروں کے چناؤ کے عمل میں بہت سی ریاستیں ایک ہی دن میں بنیادی جمہوری انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرتی ہیں۔ پارٹی رہنما پہلی چار ریاستوں (آئیووا، نیو ہمشائر، نیواڈا، اور ساؤتھ کیرولائنا) کا انتخاب کرتے ہیں جہاں فروری میں انخابات کی اجازت ہے۔ 3 مارچ پہلی تاریخ ہے جب ہر ریاست کو انتخاب کے انعقاد کی اجازت ہوتی ہے۔

دو زبانوں کے سائن بورڈ کے قریب سے گزرتا ہوا ایک آدمی۔ (© LM Otero/AP Images)

‘سپر منگل’ میں شامل ریاست ٹیکساس کے ایک پولنگ سٹیشن پر صبح سویرے ووٹ ڈالنے کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کے لیے انگریزی اور ہسپانوی زبان میں لگا سائن بورڈ۔ (© LM Otero/AP Images)

نتائج کی جانچ

پروفیسر نورینڈر کے مطابق ڈیموکرٹیک پارٹی کے بنیادی جمہوری انتخابات کے نتائج تناسب کے حساب سے تیار کیے جاتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی امیدوار جو ووٹوں کا کم از کم پندرہ فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے وہ اس ریاست سے کچھ نہ کچھ مندوبین جیت سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امیدوار نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ3 مارچ کو برتری کے لیے اسے اپنا وقت اور پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے اور اس کے لیے اسے پورا حساب کتاب کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس ریاست میں زیادہ سے زیادہ مندوبین جیت سکتا ہے۔

زیادہ سے زیادہ مندوبین اکٹھے کرنے کی دوڑ کے علاوہ’ سپر منگل‘ جیتنے والوں کے لیے جوش، چندہ اکٹھا کرنے اور توجہ حاصل کرنے کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ وائز میں واقع یونیورسٹی آف ورجینیا کالج کی سیاسیات کی پروفیسر ہیدر ایونز کے مطابق ایک وقت میں ایک ہی ریاست پر توجہ دینے کے بعد امیدوراوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں وہ کتنے مقبول ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ آیا وہ ملک کے مختلف حصوں میں ووٹروں کی بڑی تعداد کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں، اور کیا وہ ان اہم ریاستوں میں بھی اپنی طاقت دکھا سکتے ہیں جہاں ہرانتخاب میں ووٹر اپنی پسند کی پارٹی بدل لیتے رہتے ہیں۔

2008 اور 2016 کے انتخابات کے برعکس 2020 میں ڈیموکریٹک رائے دہندگان کو زیادہ امیدواروں کا سامنا ہے۔ اگر کچھ امیدوار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُن کے لیے جیتنا ناممکن ہے تو شاید وہ ’ سپر منگل‘ کو مقابلے سے دستبردار ہوجائیں۔ پروفیسر نورینڈر کا کہنا ہے کہ ایسے امیدوار وں کو رابطے ختم کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کے کسی دوسرے امیداور کی حمایت کرنی چاہیے۔ انہیں اپنی مستقبل کی راہیں کھلی رکھنا چاہیے۔”