
احمد بدر پناہ گزین کی حیثیت سے جب امریکہ آئے تو اُن کی عمر صرف آٹغ برس تھی۔
ملیشیا سےتعلق رکھنے والے جنگجووں نے بغداد میں ان کے گھر کو بم سے تباہ کیا اور ان کے خاندان کو شام بھاگ جانے پر مجبور کیا۔ بعد میں وہ بالآخر امریکہ آ گئے اور 12 پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے تک، بدر جو کہ اب لکھاری اور شاعر ہیں، دوسرے پناہ گزینوں کو اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے میں مدد کرنے کے لیے تخلیقی طریقے دریافت کرنے لگے۔
اپنی ویب سائٹ پر وہ لکھتے ہیں، “شروع شروع میں امریکی طرز زندگی میں ڈھلنے میں مشکلات پیش آئیں۔ مگر جلد ہی مجھے دوسروں کو متاثر کرنے اور لوگوں کو یکجا کرنے میں داستان گوئی کی طاقت کا احساس ہو گیا۔”
بدر نے ہائی سکول کے پہلے سال میں ناریشو کی بنیاد رکھی۔ نوجوان پناہ گزینیوں کی مدد کرنے، آپس میں جوڑنے اور اُن کی تخلیقیت کو اجاگر کرنے کا یہ ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے۔
وہ کہتے ہیں، “میں نے ناریشو یہ یقینی بنانے کے لیے شروع کیا کہ بے گھر ہونے والے بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنی کہانیاں لوگوں تک پہنچانے کے لیے جگہیں اور مواقع دستیاب ہو سکیں۔”
20 جون کو پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ نے ناریشو پر بے گھر ہونے والے اُن جیسے نوجوانوں کی تخلیقیت کو خراج تحسین پیش کیا جن کے ساتھ بدر کام کرتے ہیں۔
ناریشو نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے فیلو شپ، اور دیگر تنظیموں کے ساتھ شراکت کاریوں کی پیشکش کے ساتھ ساتھ ورکشاپوں کا اہتمام بھی کرتا ہے۔
2019ء میں سیرا کیوز یونیورسٹی اور نیویارک میں آرٹ کےمیٹرو پولٹن میوزیم کے ساتھ مل کر، بدر نے پناہ گزین نوجوانوں کے لیے داستان گوئی کے ذریعے اپنے آپ کا اظہار کرنے کی ایک فیلو شپ کا آغاز کیا۔ اس فیلو شپ کا ایک اضافی مقصد بدر کا میوزیم میں فن پاروں کے مجموعے سے متعلق امور پر کام بھی کرنا ہے۔
Istarlin Dafe, 2019 Narratio Fellow, in a New York City subway station ahead of the Fellowship performance at the Met.
Check out https://t.co/9HHL2Sw0Ui to find never-before-seen content from Intertwined Journeys, poems re-imagining objects from the @metmuseum #nyc #themet pic.twitter.com/b3JnzCsU9F
— Narratio (@Narratio_org) September 11, 2020
11 فیلوز کے پہلے گروپ نے آرٹ کے میٹروپولٹن میوزیم کے قدیم مشرق قریب کے شعبے میں کام کرتے ہوئے مختلف نوادرات کا گہرا مطالعہ کیا۔ اس گروپ میں شامل فیلوز نے اِن نوادرات سے جڑی کہانیوں کا نیا تصور پیش کیا اور میوزیم میں نوادرات کے بارے میں معلومات کو نظموں کی صورت میں تحریر کیا۔
فیلوز کی ‘ باہم جڑے سفر‘ کے عنوان سے حتمی نمائش میں وہ تصاویر بھی شامل تھیں جو فیلوز نے اس پروگرام کے دوران بنائیں تھیں۔
2019ء کے فیلوز میں شامل ندا الجبرین نے بتایا، “مجھے شام سے تعلق رکھنے والی ایک پناہ گزین کی حیثیت سے اپنے تجربات بیان کرنے تھے اور انہیں اُن لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا تھا جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک پناہ گزین ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ فیلو شپ کے بعد مجھ میں زیادہ سے زیادہ لکھنے اور تحریر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا شوق پیدا ہوا۔”
2020ء میں سیرا کیوز یونیورسٹی کے تعاون سے فیلو شپ پروگرام میں توجہ خود نوشت سوانح حیات پر فلم سازی پر مرکوز کی گئی تھی۔ اس سال نوجوان پناہ گزینوں کو اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے میں مدد کرنے کے لیے، بدر کا بیک وقت دو فیلو شپ گروپ تیار کرنے کا پروگرام ہے۔ اِن میں سے ایک نیشنل جیوگرافک کے ساتھ مل کر فوٹوگرافی پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا جبکہ دوسرے کی توجہ کا مرکز شاعری ہوگی۔ دونوں فیلوشپس میں آرٹ کے میٹرو پولٹن میوزیم کے ساتھ شراکت کاری کی جائے گی۔
2020ء کی فیلوز میں سے ایک کا نام فیلون نگانگا ہے۔ وہ جمہوریہ کانگو سے اپنی بہن کے ہمراہ 2019ء میں امریکہ آئیں۔ انہوں نے بتایا، “مجھے یقین ہے کہ میرے اپنی کہانی بیان کرنے سے دوسرے لوگوں کو مدد ملے گی۔”