
19 جون کو صدر ٹرمپ نے ایک پیٹنٹ یعنی حق ایجاد پر دستخط کیے جس کے بعد امریکہ میں پیٹنٹوں کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔ دو سو سال سے زیادہ عرصہ سے پہلے امریکہ کے بانیوں میں شامل جارج واشنگٹن نے پہلے پیٹنٹ پر دستخط کیے تھے۔

امریکہ کا یہ کروڑواں پیٹنٹ جوزف میرون کو دیا گیا ہے جو ریتھیون کمپنی کے لیے بصری انجینئر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے دور دراز اجسام کے مشاہدے کا ایسا طریقہ ایجاد کیا ہے جس میں لیزر کے ذریعے زمین اور دوسری چیزوں کی سہ رخی تصاویر تیار کی جا سکتی ہیں۔ پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک سے متعلق امریکی دفتر (یو ایس پی ٹی او) کے مطابق اس طریقے کو خودکار گاڑیوں، طبی مقاصد کے لیے تصاویر کی تیاری، دفاع، خلائی تحقیق اور سمندر کی تہہ کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
امریکی آئین میں مِلک دانش کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔ آئین کانگریس کو اختیار دیتا ہے کہ وہ “سائنس اور مفید فن کی ترقی کے لیے مصنفین اور موجدین کی متعلقہ تحریروں اور دریافتوں کے خاص حقوق محفوظ بنانے کے لیے محدود مدت کے لیے اقدامات کرے تاکہ اُنہیں اپنی تحریروں اور دریافتوں کے غیرمشمولہ حقوق حاصل رہیں۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی نیا اور مفید کام کرے جو کہ ایجاد، فنکارانہ کام یا کوئی کاروباری طریقہ بھی ہو سکتا ہے تو اسے کم از کم مخصوص برسوں تک اس کام سے منافع کے حصول کا خاص حق حاصل رہے گا۔

جارج واشنگٹن نے 31 جولائی 1790 کو جس پہلے پیٹنٹ پر دستخط کیے وہ پوٹاش بنانے کا نیا طریقہ تھا۔ یہ عنصر کھادوں میں استعمال ہوتا تھا۔
مالی سال 2017 (یکم اکتوبر 2016 تا 30 ستمبر 2017) میں ‘یوایس پی ٹی او’ کو پیٹنٹ کے لیے647,388 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے سے 347,243 کو پیٹنٹ کے حقوق دیے گئے۔ یہ دونوں تعدادیں اپنی جگہ پر ایک نیا ریکارڈ ہیں۔ اگر اس شرح کو مدنظر رکھا جائے تو آئندہ تین برسوں میں پیٹنت کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہو جائے گی۔
یہ دفتر ایجادات، ادبی اور فنکارانہ کام کے جملہ حقوق نیز “لاگو” یعنی تجارتی نشان اور برانڈ کی اشیا کے لیے ٹریڈ مارک جاری کرتا ہے۔
عام طور پر صدور نئے پیٹنٹوں پر دستخط نہیں کرتے۔ اس سے پہلے 1976 میں صدر جیرالڈ فورڈ نے امریکہ کے 200ویں یو م آزادی کے موقع پر ایسے دستخط کیے تھے۔