باقیماندہ دنیا کے ہمراہ، امریکہ سارز- کوو-2 یعنی کووڈ-19 کا باعث بننے والے نئے کورونا وائرس کے لیے ویکسین تیار کرنے پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔
بہت سے لوگوں نے کووڈ- 19 کی ایک ایسی محفوظ اور موثر ویکسین کی تیاری سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکے۔ ٹرمپ انتظامیہ اپنے “آپریشن وارپ سپیڈ انشی ایٹو” نامی پروگرام کے ذریعے اس طرح کی ویکسین تیار کرنے اور تقسیم کرنے کی کوششوں میں تیزی لانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔
تیزی سے کام کرنے کی کوششوں کے باوجود، امریکہ میں محققین کی اولین ترجیح، سلامتی ہی ہے۔
امریکی فوج کا والٹر ریڈ کا تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کووڈ-19 کی ویکسین تیار کرنے پر کام کر رہا ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں کے ڈائریکٹر، کیون موڈ جیرڈ کہتے ہیں، “ہم عوام تک ویکسین پہنچانے کے وقت کو کم کرنے کی سمت میں جتنا تیزی سے ہو سکتا ہے بڑھ رہے ہیں۔ مگر ہم سلامتی کے اُن مراحل اور سلامتی کے اُن طریقوں پر ذرہ برابر بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے جو ویکسین کی تیاری اور ٹیسٹنگ کے لیے ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہتے ہیں۔ جب ہم اُن ویکسینوں کی سلامتی کی جانچ پڑتال کی بات کرتے ہیں جن کی تیاری میں ہم مصروف ہیں تو ہم نہ تو مختصر راستہ اختیار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کریں گے۔”
پیٹرمارکس، ایف ڈی اے [امریکہ کے خوراک اور ادویات کے ادارے] کے حیاتیاتی جانچ پڑتال اور تحقیق کے مرکز کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے بتایا، ” ایف ڈی اے کووڈ-19 کی ویکسین کی صرف اسی صورت میں منظوری دے گا یا فراہمی کی اجازت دے گا جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ ویکسین اُن تمام معیاروں پر پوری اترتی ہے جن کی عوام اس ادارے سے توقع رکھتے ہیں۔”
ویکسینیں کیسے تیار کی جاتی ہیں
ویکسینوں کی تیاری میں عام طور پر برسوں لگ جاتے ہیں اور اس سارے عمل میں ویکسین وسیع پیمانے پر کیے جانے والے ٹیسٹوں کے عمل سے گزاری جاتی ہے۔ امریکہ میں تجربہ گاہوں میں تیار کی جانے والی امید افزا ویکسینوں کو پہلے جانوروں پر آزمایا جاتا ہے جس کے بعد کلینیکل ٹسٹوں یعنی انسانوں پر ٹیسٹ کیے جانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ایف ڈی اے کلینیکل ٹسٹوں کے تین مراحل کے لیے رہنما اصول مقرر کرتا ہے۔ اس دوران ہر مرحلے پر ٹسٹوں میں شریک ہونے والے انسانوں کی تعداد کو بڑھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹسٹوں میں عام طور آزمائشی ویکسین لگوانے والے ہزاروں رضاکار حصہ لیتے ہیں۔

کلینیکل ٹسٹوں سے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذیلی اثرات مرتب کیے بغیر وییکسین موثر ہے تو ویکسین تیار کرنے والا عوامی سطح پر ویکسین لگانے کے لیے ایف ڈی اے کو منظوری کی درخواست کر سکتا ہے۔ جب ویکسین وسیع پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہوتی ہے تو وفاقی حکومت اس وقت بھی بلا تعطل اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے کہ کہیں اس کے منفی اثرات تو نہیں مرتب ہو رہے۔
ویکسین کی تیاری سے جڑے ممکنہ خطرات کے بارے میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ مشہور سائنس دان جوناس سلک کی تیار کردہ پولیو کی ویکسین کو عوامی استعمال کا لائسنس 1955ء میں جاری کیا گیا۔ مگر تیاری کے دوران ایک غلطی کی وجہ سے تیار شدہ ویکسین کے کچھ گروپوں میں زندہ وائرس چلا گیا۔ اس واقعے کے بعد بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی محفوظگی کو یقینی بنانے کی خاطر معیار پر نظر رکھنے کے لیے فیکٹریوں میں ویکسین کی تیاری کے حوالے سے امریکہ میں اضافی اقدامات اٹھائے گئے۔
“سلامتی کے حوالے سے چیزوں کی تیاری میں بچت کرنے کے مقابلے میں لوگوں کی زندگیاں ہمارے لیے بہت زیادہ اہم ہیں”
- رابرٹ ہاپکنز، قومی ویکسین کی مشاورتی کمیٹی کے سربراہ
آج، ایف ڈی اے کا حیاتیات کی جانچ پڑتال اور تحقیق کا مرکز ویکسین کی سلامتی اور جائزوں کی نگرانی کرتا ہے اور امریکہ میں ویکسین کے امیدوار (اداروں یا کمپنیوں) کو لائسنس جاری کرتا ہے۔
ہارورڈ یونیورستی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر، ڈیوڈ جونز کہتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں اب ویکسین کی تیاری مستقل طور پر محفوظ بن چکی ہے۔ زندہ وائرس کی بجائے اب زیادہ تر ویکسینوں میں یا تو وائرس غیرسرگرم شکل میں ہوتا ہے یا وائرس کی کوئی خاص قسم کی پروٹین موجود ہوتی ہے جسے انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کووڈ-19 کی ویکسینوں کے نئے امیدوار، جن میں ماڈرنا نامی کمپنی کی اور فائزر/بائیو این ٹیک کمپنیوں کی تیاری کے مراحل کی ویکسینیں بھی شامل ہیں، وائرس کے جینیاتی کوڈ کو استعمال کرتے ہوئے نئی ٹکنالوجیاں کے تجربات کر رہے ہیں۔
تاہم حفاظت ضروری ہے۔ جونز کہتے ہیں، “بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے.” اگر اس عمل کے سب سے پہلے حصے کے طور پر حفاظت کے بغیر ویکسین تیار کر لی جاتی ہے تو اس سے لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچے گا ور اعتماد ختم ہو جائے گا۔ جونز کا کہنا ہے، “اس سے پولیو، خسرے اور دیگر (بیماریوں) کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگوانے میں اچھی خاصی کمی آنے کے خدشات ہیں۔”
سلامتی والی تیز رفتاری
امریکی محکمہ صحت اور انسانی خدمات کے ویکسین کی تیاری اور سلامتی کے قومی پروگرام کو مشورے دینے والی قومی ویکسین کی مشاورتی کمیٹی کے سربراہ، رابرٹ ہاپکنز کہتے ہیں کہ امریکہ سلامتی پر سمجھوتہ کیے بغیر ویکسین کی تیاری کے سفر کو مختصر کرنے پر کام کر رہا ہے۔
ہاپکنز کہتے ہیں، “ہم ‘ آپریشن وارپ سپیڈ’ اور اپنی بہت سی دیگر حالیہ ویکسینوں کے تجربات کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم ان میں سے کچھ [معمول کے] اقدامات کر رہے ہیں اور ہم ان میں سے کچھ اقدامات یکے بعد دیگرے کرنے کی بجائے ساتھ ساتھ کر رہے ہیں۔ آخری نتیجے پر تیزی سے پہنچنے کے لیے ہم چیزوں کو تھوڑے سی مختلف ترتیب سے کر رہے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب سلامتی اور تاثیر کی بات آئے تو ہم کسی مرحلے کو چھوڑ دیں۔ سلامتی کے حوالے سے چیزوں کی تیاری میں بچت کرنے کے مقابلے میں لوگوں کی زندگیاں ہمارے لیے بہت زیادہ اہم ہیں۔”

والٹر ریڈ کے تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کے موڈ جیرڈ کا کہنا ہے کہ ویکسین تیار کرنے والے عام طور پر تمام کلینیکل ٹیسٹوں اور ایف ڈی اے کی مکمل منظوریوں کا انتظار کرتے ہیں اور منظوری ملنے کے بعد بڑی تعداد میں ویکسین کی خوراکیں تیار کرنا شروع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “اس کی وجہ سے کام، اگر برسوں نہیں تو مہینوں ضرور پیچھے چلا جاتا ہے۔ مگر آپریش وارپ سپیڈ کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اس منصوبے کے تحت نجی شعبے کی شراکت سے کووڈ- 19 کی کئی ایک امیدوار کمپنیوں کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔
بڑی تعداد میں ویکسین کی خوراکیں تیار کرنے کے لیے کلینیکل تجربات کے مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر، بقول موڈ جیرڈ “ہمارے پاس لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ویکسین اسی دن تیار پڑی ہوگی جس دن ایف ڈی اے اس کی منظوری دے گا۔ (نوٹ: اگر اس کی منظوری نہیں دی جاتی تو ویکسین کی یہ خوراکیں نہیں استعمال کی جائیں گی۔)
اس کے علاوہ اور کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، “کورونا وائرس سے متعلق ہماری مہارت؛ امیونولوجی، ساختیاتی حیاتیات اور وباؤں کے پھیلاؤ کے بارے میں ہمارے ماہرین؛ ہماری ویکسین بنانے کی سہولت اور کلینیکل ٹسٹوں کا مرکز: یہ سب ویکیسین کی تیاری کے وقت کو کم کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔ اس سارے سفر میں ہم نے سلامتی کے عمل کو یقینی بنانے، جائزے لینے اور دوبارہ جائزہ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
موڈ جیرڈ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں، “جب سلامتی کی بات آتی ہے تو میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ اس عمل کا کتنی باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اسے کتنے قانون قاعدے کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ جب اِن ویکسینوں کی تیاری کی بات آتی ہے تو سلامتی کلیدی مقصد ہوتا ہے۔”
فری لانس مصنفہ، لنڈا وانگ نے یہ مضمون تحریر کیا۔