امریکہ میں کھیلوں کی انتظام کاری میں خواتین کا کردار

امریکہ میں کھیلوں کی قیادت میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور امریکہ کی مردوں کی ٹیموں کے چوٹی کے انتظامی عہدوں پر زیادہ سے زیادہ خواتین فائز ہو چکی ہیں۔

آپ بیس بال کی پیشہ ورانہ ٹیم ‘میامی مارلنز’ کو ہی لے لیں۔ یہ امریکہ کی کھیلوں کی پہلی بڑی ٹیم ہے جس کے روزمرہ کے معمولات ایک خاتون چلا رہی ہیں۔

جب میامی مارلنز نے 2020 میں کِم انگ کی خدمات حاصل کیں تو انہیں میجر یعنی بڑی لیگ بیس بال کی تاریخ میں پہلی خاتون جنرل مینیجر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے دو برس بعد کیرولین او کونر کو میامی مارلنز کے کاروباری معاملات کا صدر نامزد کیا گیا۔

اس سے قبل او کونر مالیاتی شعبے میں کام کیا کرتی تھیں۔ انہیں 2017 میں مارلنز نے اپنے فرنٹ آفس میں تعینات کیا۔ انہوں نے بتایا کہ “جب میں نوجوان لڑکیوں سے بات کرتی ہوں تو مجھے اُن کا اِس منصب پر مجھے دیکھنا اچھا لگتا ہے کیونکہ مجھے اپنے وقتوں میں یہ نہیں محسوس ہوتا تھا کہ میرے سامنے کوئی مثالی نمونہ موجود ہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ لوگ جب مجھے دیکھیں تو انہیں اپنے بارے میں احساس ہو کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔”

چند ایک ایسی خواتین سے ملیے جو کھیلوں کی انتظام کاری میں ایک مثالی نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

میجر لیگ بیس بال

مائکروفون کے سامنے مسکراتی ہوئی ایک خاتون (© Jason Redmond/AP)
کیٹی گرِگس کو ‘سی ایٹل میرینرز’ کے کاروباری معاملات کی صدر بننے سے پہلے 2017 میں سپورٹس بزنس جرنل کا ‘گیم چینجر’ نامی ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ کھیلوں کے کاروبار کے تمام پہلوؤں میں لیڈر کا کردار ادا کرنے والی خواتین کو دیا جاتا ہے۔ (© Jason Redmond/AP)

جب سی ایٹل میرینرز نے کیٹی گرگس کو 2021 میں ٹیم کا صدر منتخب کیا تو انہیں میجر لیگ بیس بال کی اعلٰی ترین عہدے کے لیے منتخب کی جانے والی پہلی خاتون کا اعزاز حاصل ہوا۔

وہ بیس بال کی مداح ہیں اور بچپن میں اُن کے گھر کے عقبی صحن میں بیس بال کی بیٹنگ کا نیٹ ہوا کرتا تھا۔ بزنس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ پیشہ ور فٹ بال کی اٹلانٹا یونائیٹڈ نامی ٹیم کی چیف بزنس افسر بن گئیں۔

گرِگس نے بتایا کہ “جب میں تنوع، انصاف، مشمولیت کو دیکھتی ہوں تو میں اسے کاروبار کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ کاروباری لحاظ سے یہ اچھی بات ہے کہ آپ اپنے اردگرد ایسے لوگ اکٹھے کریں جو آپ سے مختلف دکھائی دیتے ہوں اور مختلف طریقے سے سوچتے ہوں۔”

پیشہ ور امریکی فٹ بال

عینک پہنے خاتون اپنی دائیں جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہی ہیں (© Marcio Jose Sanchez/AP)
لاس ویگاس رائڈرز کی صدر، سینڈرا ڈگلس مورگن کا کہنا ہے کہ انہیں کام کی اخلاقیات اور تنوع کا احساس اپنے والدین سے ورثے میں ملا ہے۔ اُن کے والد، گلبرٹ امریکی فضائیہ میں ماسٹر سارجنٹ اور اُن کی کوریائی نژاد والدہ کا نام کِل چا تھا اور وہ لاس ویگاس کے کیسینو میں کام کرتی تھیں۔ (© Marcio Jose Sanchez/AP)

سینڈرا ڈگلس مورگن نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مقامی حکومت کی وکیل، کارپوریٹ لیڈر اور ریاست نیواڈا کی ایک ارب ڈالر کی گیمنگ صنعت کی سربراہ ضابطہ کار کے طور پر کام کر کے کئی رکاوٹیں عبور کیں۔ 2022 میں وہ قومی سطح کی [امریکی] فٹ بال لیگ کی پہلی غیر سفید فام خاتون صدر بنیں۔

ڈگلس مورگن نے بتایا کہ اُنہیں احساس ہے کہ لاس ویگاس ریڈرز ٹیم کی صدر کے طور پر اُن کی تعیناتی اُن کی ذات سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ وہ ایسی نوجوان لڑکیوں کو جانتی ہیں جو اب انہیں کھیل کے میدان میں دیکھنے کے بعد ریڈرز کے لیے کام کرنے کے بارے میں سوچتی ہیں۔

انہوں نے سی این بی سی کو بتایا کہ “میرے نزدیک کامیابی کی تعریف [کسی میدان میں] پہلا ہونا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کے بعد آنے والے بہت سے لوگ آپ کی پیروی کریں۔”

ہاتھ باندھے کھڑی مسکراتی ہوئی عورت (© Carolina Panthers)
کرسٹی کولمین نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز اکاؤنٹنگ کے شعبے میں کیا۔ آج وہ کیرولائنا پینتھرز کی صدر ہیں۔ (© Carolina Panthers)

کرسٹی کولمین نے 2014 میں این ایف ایل  کی کیرولائنا پینتھرز نامی ٹیم کی کنٹرولر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ وہ ٹیم کی آمدنی اور تنخواؤں کے شعبے کی انچارج تھیں۔ اس کے آٹھ برس بعد وہ ٹیم کی صدر کی حیثیت سے اس کے تمام امور کی انچارج بن گئیں۔

اِن دو عہدوں کے درمیان انہوں نے پینتھرز کی مالیات کی ڈائریکٹر اور 2019 سے چیف فنانشل آفیسر کے طور پر کام کیا۔ جب 2018 میں یہ ٹیم موجودہ مالک کو بیچی گئی تو کولمین کی زیرقیادت تمام قانونی امور طے پائے۔

انہوں نے پینتھرز کی ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ “میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ میں کوئی نہ کوئی مثبت اثر ڈال سکتی ہوں۔”

پینتھرز میں آنے سے پہلے کولمین اکاؤنٹنگ کی کمپنی ڈیلوائٹ میں کام کرتی تھیں اور وہ پینتھرز کے اکاؤنٹ کی ذمہ دار تھیں جس کی وجہ سے وہ سٹیڈیم میں جاتی رہتی تھیں۔

پیشہ ور اور یونیورسٹی کی سطح کا باسکٹ بال

مائکروفونوں کے پیچھے بیٹھے ایک مرد اور ایک عورت (© Ron Jenkins/AP)
‘ڈیلس میورِکس’ نامی ٹیم کے مالک مارک کیوبن [بائیں] نے 2018 میں سنتھیا مارشل کو اپنی ٹیم میں کام کے ماحول کو تبدیل کرنے کی ذمہ داریاں سونپیں۔ (© Ron Jenkins/AP)

سنتھیا مارشل اے ٹی اینڈ ٹی کمپنی میں 40 سال کی ملازمت کے بعد ریٹائرہوئیں۔ 2018 میں انہیں نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن [این بی اے] کی ڈیلس میورِکس نامی ٹیم سے فون آیا اور انہیں ٹیم میں شامل ہونے اور اس کے کام کرنے کا ماحول تبدیل کرنے کا کہا گیا۔ اس طرح وہ این بی اے ٹیم کی چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر کام کرنے والیں پہلی سیاہ فام خاتون بن گئیں۔

مارشل کے پاس اے ٹی اینڈ ٹی اور اپنی مشاورتی کمپنی میں کمپنیوں کی کام کی جگہوں پر مشمولیت اور تنوع کو بہتر بنانے کا تجربہ تھا۔ 2021 میں فوربس رسالے نے انہیں دنیا کی سب سے زیادہ متاثرکن خواتین لیڈروں میں سے ایک لیڈر قرار دیا۔

انہوں نے پی بی ایس ٹیلی ویژن کو بتایا کہ “میں نے اے ٹی اینڈ ٹی میں اپنے 36 برسوں کے دوران تنوع کی قدرو قیمت کے بارے میں سیکھا، اور جانا کہ اس کا کم از کم منافعے کے ساتھ، فیصلہ سازیوں میں متنوع گروپ کی آوازوں کے ہونے سے اور چیزوں کو دیکھنے سے کیا تعلق بنتا ہے۔

ڈائس پر موجود ایک عورت مائک کے ذریعے تقریر کر رہی ہے (© Mitchell Layton/Getty Images)
وال ایکرمین مردوں اور عورتوں دونوں کی کھیلوں کی چوٹی کی امریکی ایگزیکٹو ہیں۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کی ابتدا کالج کی باسکٹ بال کھلاڑی کی حیثیت سے کی۔ (© Mitchell Layton/Getty Images)

وال ایکرمین کے 2013 میں ‘بِگ ایسٹ کانفرنس’ نامی کھیلوں کی یونیورسٹی سطح کی تنظیم کی سربراہ مقرر کیے جانے سے پہلے، انہیں یونیورسٹی، پیشہ ورانہ اور اولمپک سطحوں کی کھیلوں کے تجربات حاصل تھے۔

این بی اے میں بحیثیت ایک ایگزیکٹو کے کام کرنے کے بعد وہ 1996 میں عورتوں کے باسکٹ بال کی قومی ایسوسی ایشن کی پہلی صدر بنیں۔ 2005 میں ایکرمین امریکہ کی مردوں اور عورتوں کی باسکٹ بال کی اولمپک ٹیموں کی نگرانی کرنے والے ادارے، ‘یو ایس اے باسکٹ بال’ کی پہلی خاتون صدر بنیں۔

ایکرمین نے بتایا کہ وہ ٹینس کی شہرہ آفاق کھلاڑی بلی جین کنگ کے اِن الفاظ پر یقین رکھتی ہیں کہ “آپ کو وہ کچھ دیکھنا ہوتا ہے جو کچھ آپ بننا چاہتے ہیں۔” بچپن میں وہ کنگ اور آئس سکیٹر ڈوروتھی ہیمل کی مداح تھیں۔

ایکرمین نے کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے اپنے ایک بھائی کے ساتھ بڑا ہونے کے بارے میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ “یہ بات اہم نہیں تھی کہ میں ایک لڑکی تھی۔ جب بات اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی ہوتی تھی تو میری والدہ اور میرے والد ہم دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے تھے۔”