کووِڈ-19 عالمی وباء کے پھوٹ پڑنے کے بعد سے امریکی حکومت نے جنوب مشرقی ایشائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے رکن ممالک کو صحت کی ہنگامی ضروریات کے لیے اور انسانی بنیاد پر دی جانے والی امداد کے طور پر 18 ملین ڈالر سے زائد فراہم کیے ہیں۔
یہ امداد کئی ایک مختلف شکلوں میں دی گئی ہے۔ اِن میں میانمار کو ٹکنیکل ماہرین کی فراہمی سے لے کر کمبوڈیا کو بہترین طریقوں کے مشوروں اور انڈونیشیا کے لیے لیبارٹری کا نظام تیار کرنے تک کی مثالیں شامل ہیں۔
وزیرخارجہ مائیکل آر پومپیو نے 34ویں آسیان سربراہی کانفرنس سے متعلق ہونے والے اجلاسوں میں وعدہ کیا کہ امریکہ “جنوب مشرقی ایشیا کے ہر ایک ملک کی خودمختاری، لچک، اور خوشحالی کے لیے عزم کیا ہوا ہے۔”
عالمی وباء کے ان ایام میں امریکی حکومت نے اپنے اس عزم کو پورا کیا ہے۔
We have an amazing @USEmbPhnomPenh asset in our Naval Medical Research Center (NAMRU-2) experts, working hand-in-hand with local health authorities to fight disease in #Cambodia, including COVID-19. These dedicated doctors & scientists are on the frontlines against the pandemic. pic.twitter.com/ejCOeoPPfO
— Ambassador W. Patrick Murphy (@USAmbCambodia) March 27, 2020
یہ ہنگامی امداد 3.5 ارب ڈالر کی اُس امداد کے علاوہ ہے جو امریکہ نے آسیان کے رکن ممالک کو گزشتہ 20 برسوں کے دوران فراہم کی ہے۔
آسیان ممالک میں برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام شام ہیں۔
پومپیو نے 26 مارچ کو اعلان کیا کہ امریکہ کووِڈ-19 کے خلاف جنگ میں عالمی سطح پر 274 ملین ڈالر فراہم کر رہا ہے۔ پومپیو نے یکم اپریل کو میڈیا کے مقامی اداروں کے صحافیوں کے ساتھ ایک ٹیلی فون کال کے دوران کہا، “اِس (امداد) کا ایک اچھا خاصا حصہ بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کے لیے ہوگا۔”
عالمی وباء کووِڈ-19 سے نمٹنے کے لیے وزیر خارجہ نے 8 اپریل کو صحت، انسانی اور اقتصادی امداد کے طور پر 225 ملین ڈالر مالیت کی امداد کا اعلان کیا۔
امداد کے ساتھ ساتھ امریکہ آسیان کو کووِڈ-19 کے بارے میں شفاف انداز سے معلومات بھی فراہم کر رہا ہے تاکہ اس کے رکن ممالک کے پاس اس وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے تازہ ترین معلومات دستیاب ہوں۔
اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے بارے میں پومپیو نے کہا کہ یہ پیسے اور معلومات “تکنیکی لحاظ سے اِن ممالک کے مقابلہ کرنے اور اس وباء پر نظر رکھنے کی اہلیت کو برقرار رکھنے، [اور] اُن تمام چیزوں میں [مدد کریں گی] جو اب تک ہم اجتماعی طور پر سیکھ چکے ہیں۔”
اس عمل کے ایک حصے کے طور پر امریکہ نے ویت نام کی سربراہی میں قائم کیے گئے آسیان کی رابطہ کاری کے صحت عامہ کے ایمرجنسی ورکنگ گروپ کے ساتھ 31 مارچ کو ایک وڈیو کانفرنس کا اہتمام کیا۔ ویت نام اور امریکہ نے ایک مشترکہ سربراہی بیان جاری کیا جس میں کووِڈ-19 کے خلاف جنگ میں امریکہ اور آسیان کی شراکت کاری کو دہرایا گیا ہے۔

ذیل میں محض اُن طریقوں کی چند ایک مثالیں دی جا رہی ہیں جن کے مطابق 18 ملین ڈالر اور دیگر امریکی پروگراموں کو آسیان ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثلاً:
- کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام میں ٹیسٹوں کے لیے لیبارٹریاں تیار کرنا۔
- فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام میں کوووِڈ-19 کے انفیکشنوں کی روک تھام اور اِن پر قابو پانا۔
- برونائی، لاؤس، ملائشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ میں آلات حاصل کرنا۔
- فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام میں ہنگامی مواصلات کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا۔
- کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویت نام میں کووِڈ-19 کے مریضوں کو تلاش کرنا۔
- میانمار، لاؤس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام میں انفلوئنزا کے ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے تربیت دینا۔
Total includes nearly $100M in assistance from @USAID’s Global Health Emergency Reserve Fund & $110M from @USAID’s International Disaster Assistance account, for the most at-risk countries affected by #COVID19. Read here: https://t.co/VfpJtvNQMl https://t.co/umQVnckQcW
— U.S. Embassy Bangkok (@USEmbassyBKK) April 2, 2020
امریکہ صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ کام کرتے ہوئے کووِڈ-19 پر قابو پانے میں بھی اِن ممالک کی مدد کر رہا ہے۔ گزشتہ برس امریکہ نے ڈبلیو ایچ او کو 400 ملین ڈالر سے زائد کی رقم دی۔ وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 31 مارچ کو کہا کہ چین کی طرف سے دی جانے والی رقم کے مقابلے میں یہ رقم دس گنا زیادہ ہے۔
پومپیو نے کہا، ” جب کبھی بھی آپ دنیا بھر میں کووِڈ-19 کی اقوام متحدہ اور دیگر انسانی اداروں کی طرف سے اعلٰی معیار کی اور موثر امداد فراہم ہوتی دیکھتے ہیں تو آپ جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ امریکی عوام اور اُن لوگوں کی فراخ دلی ہوتی ہے جن کی اور ہماری انسانی اقدار مشترک ہیں۔”
“ہم ایک ایسے موثر کثیرالجہتی نظام پر یقین رکھتے ہیں جو ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر مرکوز ہو نہ کہ سیاسی فائدوں کے حصول پر۔ سچی آفاقی قیادت اسی طرح کی ہوتی ہے۔”