2016 میں برمی فوج نے برما کی روہنگیا اقلیت کے ارکان پر حملے کیے جن میں تقریباً ایک لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ 2017 میں برما کے فوجی حملوں میں نو ہزار سے زیادہ روہنگیا ہلاک ہوئے اور 740,000 سے زیادہ کو ملک چھوڑنا پڑآ۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے تعین کیا ہے کہ دیہاتوں کی مسماری، عصمت دری، تشدد اور قتل سمیت روہنگیا پر برمی فوج کے بار بار حملے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔
امریکی حکومت کی تاریخ میں یہ آٹھواں موقع ہے کہ واقعات کی روشنی میں نسل کشی کیے جانے کا تعین کیا گیا ہے۔ اس تعین کی بنیاد امریکی محکمہ خارجہ کے تفصیلی تجزیے پر ہے جس میں اقوام متحدہ، آزاد گروپوں اور تقریباً 1,000 روہنگیا پناہ گزینوں کے بارے میں محکمہ خارجہ کے سروے سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل ہیں۔
21 مارچ کو امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے برمی فوج کے مظالم کو “وسیع پیمانے پر اور منظم طریقے” سے کیے جانے والے مظالم قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے کھلے بندوں “روہنگیا کو جو کہ ایک مسلم نسلی اقلیتی گروہ ہے تباہ کرنے کے ارادے” کا عملی مظاہرہ کیا۔
بلنکن نے کہا کہ روہنگیا نسلوں سے برمی معاشرے کا ایک اٹوٹ حصہ چلے آ رہے ہیں اور ان کے خلاف مظالم کے ذمہ داروں میں سے بہت سے لوگوں نے کئی دہائیوں سے دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف بھی مظالم ڈھائے ہیں۔

روہنگیا نسل کشی کے ذمہ دار بہت سے برمی فوجی حکام نے برما کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف یکم فروری 2021 کی بغاوت میں بھی حصہ لیا۔ بلنکن نے کہا کہ ان فوجیوں کی حکومت نے عورتوں اور بچوں سمیت 1,670 سے زیادہ افراد کو قتل کیا ہے اور کم از کم 12,800 لوگوں کو ناحق حراست میں لیا ہے۔
محکمہ خارجہ نے اگست 2018 میں بنگلہ دیش میں رہنے والے تقریباً 1,000 روہنگیا مہاجرین سے کیے جانے والے سروے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی۔ دیگر کے علاوہ اس میں مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے:-
- سب کو برما سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔
- تین چوتھائی نے برما کی فوج کو کسی نہ کسی کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
- نصف سے زیادہ نے جنسی زیادتی کے واقعات دیکھے ہیں۔
- ہر پانچ میں سے ایک نے اجتماعی ہلاکتوں کا کوئی نہ کوئی واقعہ دیکھا ہے۔
بلنکن نے اس بات کا خآص طور پر ذکر کیا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ برمی فوج روہنگیا کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ بالکل عیاں ہے۔ حملوں سے پہلے انہوں نے چاقو اور کلہاڑیاں ضبط کر لیں، روہنگیا کے گھروں پر سرخ پٹی سے نشان لگا دیئے اور فرار کے راستے بند کر دیے۔ اس کے بعد، انہوں نے پناہ گزینوں کو لے جانے والی کشتیوں کو بھی ڈبو دیا۔
برما کی فوج کے ایک رکن نے کہا کہ اس کے کمانڈنگ افسر نے اسے کہا، “ہر شخص کو دیکھتے ہی گولی مارو” اور گاؤں کو جلا دو اور عورتوں کی عصمت دری کرو اور انہیں قتل کر دو۔

امریکی حکام بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ان مظالم کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ برما میں بغاوت سے پہلے اور بعد میں دوسروں کے خلاف کیے گئے مظالم کے ذمہ داروں کے احتساب کو بھی فروغ دینے پر کام کر رہے ہیں۔
اپنی 21 مارچ کی تقریر میں بلنکن نے کہا کہ نسل کشی کا امریکی تعین روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کی سنگینی کو تسلیم کرتا ہے اور ایک ایسے دن کی جانب ایک قدم کی نمائندگی کرتا ہے جب تمام برمی لوگ مساوی حقوق اور وقار سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
بلنکن نے روہنگیا کے خلاف برمی فوج کے مظالم کے بارے میں کہا، “وہ دن ضرور آئے گا جب خوفناک کارروائیوں کے ذمہ داروں کو ان کا جواب دینا پڑے گا۔”