امریکہ نے 2016 کے دوران10,000 شامی پناہ گزینوں کو ازسرِنو آباد کرنے کے بارے میں صدر اوباما کے وعدے کو 29 اگست کو اس وقت پورا کر دکھایا جب پناہ گزینوں کی تازہ ترین کھیپ میں شامل خاندان امریکہ میں اپنی زندگی شروع کرنے کے لیے یہاں پہنچے۔
اس سنگ میل تک پہنچنے کے لیے امریکہ کے کئی اداروں نے مل کر کام کیا اور باریک بینی کے ساتھ پناہ گزینوں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے، اس کام کو حکومت کے مالی سال کے اختتام سےایک ماہ قبل مکمل کرلیا۔
صدر کے ہدف میں 10,000 شامی پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی یہ تعداد کم از کم ہے نہ کہ زیادہ سے زیادہ۔ لہذا 30 ستمبر کو مالی سال کے اختتام سے قبل مزید پناہ گزینوں کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ اس سال امریکہ میں اپنی زندگیوں کا نئے سرے سے آغاز کرنے والے یہ 10,000 پناہ گزین، دنیا بھر میں بہت سے ملکوں میں تشدد اور ظلم و ستم سے اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے والے 85,000 پناہ گزینوں میں شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائیس نے’’ شام سے آنے والوں کے علاوہ اس سال دنیا بھر سے آ کرامریکہ میں ازسرِنو آباد ہونے والے دیگر بہت سے پناہ گزینوں کو پُرجوش انداز سے خوش آمدید کہا۔‘‘ پوری دنیا مل کر جتنے پناہ گزینوں کو قبول کرتی ہے امریکہ اکیلا اس سے زیادہ پناہ گزینوں کو اپنے ہاں از سرِنو آباد کرتا ہے۔
2011ء میں خانہ جنگی چھڑنے کے بعد، لگ بھگ 48 لاکھ شامی باشندے اپنی جانیں بچا کر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ابھی تک پناہ گزین کیمپوں یا خطے میں عارضی ٹھکانوں میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے ترکی، لبنان، اردن، مصر اور عراق میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگ شام کے اندر ہی بےگھر ہو چکے ہیں۔
وزیر خارجہ کیری نے بتایا کہ امریکہ نے شام اور خطے کے لیے انسانی بنیادوں پر 5 ارب 60 کروڑ ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا،’’سب سے زیادہ خطرات سے دوچار پناہ گزینوں میں سے کچھ لوگوں کو ازسرِنو آباد کرنے کےعلاوہ ہم نے ہمیشہ انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے اور ان مقامات پر پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے، جہاں وہ فرار ہو کر پہنچتے ہیں تاکہ جب لڑائی ختم ہو تو وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔‘‘
صدر، جنہوں نے 2017ء کے مالی سال کے دوران دنیا بھر سے آنے والے 1,00,000 پناہ گزینوں کو ملک میں قبول کرنے کے لیے کہا ہے، 20 ستمبر کونیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عالمی لیڈروں کے ایک سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ اس اجلاس کا مقصد دنیا بھر میں دربدر ٹھوکریں کھانے والے کروڑوں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی مدد کے لیے ایک بہتر، انسان دوست اور مربوط طریقہ کار وضع کرنا ہے۔