
امریکہ نے دسمبر 1941 میں دوسری جنگ عظیم میں اپنی شمولیت سے پہلے ہی سوویت یونین کو نازی حملے میں شکست دینے میں مدد کرنے کے لیے اسلحہ اور سازوسامان بھیجنا شروع کر دیا تھا۔
گو کہ سوویت یونین اور جرمنی اگست 1939 میں عدم جارحیت کے ایک معاہدے پر دستخط کر چکے تھے مگر جرمنی کے 1941 کے یو ایس ایس آر پر حملے کی وجہ سے یہ اتحاد ختم ہو گیا جس نے سوویت یونین کو نازیوں کا دشمنوں کے طور پر سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے امریکی کانگریس کو اس بات کا قائل کیا کہ امریکہ کو اُن ممالک کو فوجی امداد دینی چاہیے “جو کہ امریکہ کے دفاع کے لیے انتہائی اہم ہیں۔”
“ہم [ان سے] یہ نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی محض اس وجہ سے کہیں گے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں کیونکہ وہ اُن ہتھیاروں کی قیمت ادا کرنے سے قاصر ہیں جن کے بارے میں ہمیں احساس ہے کہ ان کے پاس ہونے چاہیئیں۔”
امریکہ کی جنگ میں شمولیت سے نو ماہ قبل منظور کیے جانے والے “لینڈ-لیز ایکٹ” یعنی قرض دو۔ کرائے پر دو نامی قانون کے تحت واشنگٹن نے برطانیہ، چین اور سوویت یونین کو جنگی سازوسامان بھیجا۔ گوکہ امریکہ اور یو ایس ایس آر کے درمیان دیگر شعبوں میں اختلافات پائے جاتے تھے تاہم ہٹلر سے لاحق خطرات نے دونوں کو ایک مشترکہ مقصد پر اکٹھا کر دیا۔

تکنیکی لحاظ سے امریکہ نے یہ ہتھیار اور سازوسامان ادھار دیئے تھے۔ روز ویلٹ نے اِن ہتھیاروں پر اٹھنے والی لاگت کے بارے میں فکرمند امریکیوں کو یہ بات بتائی:
“فرض کیجیے کہ میرے پڑوسی کے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ … اگر وہ میرے باغ کا پائپ لے سکے اور اسے پانی کے اپنے نل سے لگا سکے تو ہو سکتا ہے کہ میں اُس کے ہاں لگی آگ کو بجھانے میں مدد کر سکوں۔ تو پھر میں کیا کروں؟ اس کاروائی سے پہلے میں اسے یہ نہیں کہتا کہ “پڑوسی صاحب میرے باغ کا یہ پائپ مجھے 15 ڈالر میں پڑا ہے۔ اس کے لیے آپ کو مجھے 15 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔’ مجھے 15 ڈالر نہیں چاہیئیں۔ میں اپنا پائپ واپس لینا چاہتا ہوں۔ باالفاظ دیگر اگر آپ مخصوص قسم کا گولہ بارود کسی کو ادھار دیں اور جنگ کے بعد یہ اسلحہ واپس آ جائے تو آپ سب ٹھیک رہیں گے۔”
انجام کار امریکہ نے پیسے کی واپسی کے بارے میں نہ تو زیادہ کوشش کی اور نہ ہی زیادہ توقع رکھی۔ بعد میں جنگی قرضوں کو بہت زیادہ کم شرح پر چکا دیا گیا۔ مگر لینڈ-لیز کم وبیش امریکہ کی طرف سے ایک امداد تھی جسے روز ویلٹ نے نازی ازم اور فسطائیت کے خلاف اپنے شراکت داروں کے لیے “جمہوریت کا اسلحہ خانہ” قرار دیا۔
سرخ آرمی کو اسلحہ سے لیس کرنا

جون 1941 میں نازی جرمنی کے سوویت یونین پر حملے کے بعد اگست تک امریکہ سامان لے جانے والے پہلے فافلے بھجوا چکا تھا۔
اس امداد کا دائرہ کار روس کے سرکاری اخبار (روسیاسکایا گزیٹا) کی ‘ رشیا بیونڈ‘ نامی ایک آن لائن اشاعت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس امداد کے دائرہ کار کو بہت سے تاریخ دانوں نے بھی بیان کیا ہے جن میں البرٹ ایل ویکس کی 2004 میں چھپنے والی کتاب لائف سیور: لینڈ-لیز ایڈ ٹو دا یو ایس ایس آر اِن دی ورلڈ وار II بھی شامل ہے۔
مجموعی طور پر امریکہ نے اپنے روسی اتحادی کو مندرجہ ذیل سازوسامان بھیجا:-
-
- 400,000 جیپیں اور ٹرک
- 14,000 طیارے
- 8,000 ٹریکٹر
- 13,000 ٹینک

اس کے علاوہ مندرجہ ذیل سامان بھی بھجوایا گیا:
- 15 لاکھ سے زائد کمبل
- ایک کروڑ 50 لاکھ فوجی بوٹ
- 107,000 ٹن کپاس
- (ہوائی جہازوں، ٹرکوں اور ٹینکوں میں بھرنے کے لیے ایندھن) بھرنے کے لیے دف27 لاکھ ٹن پیٹرولیم کی مصنوعات
- 45 لاکھ ٹن خوراک

امریکیوں نے بندوقیں، گولہ بارود، دھماکہ خیز مواد، تانبا، فولاد، ایلومینیم، ادویات، فیلڈ ریڈیو، ریڈار کے اوزار، کتابیں اور دیگر اشیاء بھی بھیجیں۔
حتٰی کہ امریکہ نے فورڈ کمپنی کی ٹائر بنانے والی ایک پوری فیکٹری فوجی ٹائر بنانے کے لیے سوویت یونین پہنچا دی۔
1941 سے لے کر 1945 تک امریکہ نے سامان اور خدمات کی شکل میں روس کو 11.3 ارب ڈالر بھیجے۔ 2016 کے حساب سے یہ رقم 180 ارب ڈالر بنتی ہے۔
اس امداد سے پڑنے والا فرق

نومبر 1941 میں روزویلٹ کے نام ایک خط میں سوویت وزیراعظم جوزف سٹالن نے لکھا:
“جناب صدر، سوویت یونین کو سامان کی ترسیلات اور خام مال کی صورت میں ایک ارب ڈالر کا بلا سود قرض دینے کے آپ کے فیصلے کو سوویت حکومت نے تہہ دل سے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔ اس امداد کی حیثیت سوویت یونیں کی [ہمارے] مشترکہ دشمن ہٹلریت کے خلاف ایک بڑی اور مشکل جنگ میں فوری امداد کی سی ہے۔”

دسمبر 1943 میں تہران میں ہونے والی کانفرنس کے دوران دیئے جانے والے عشائیے میں جام صحت تجویز کرتے ہوئے سٹالن نے مزید کہا کہ “امریکہ … مشینوں کا ملک ہے۔ لینڈ-لیز [پروگرام] کے تحت [دی جانے والیں] اِن مشینوں کے استعمال کے بغیر ہم یہ جنگ ہار جاتے۔”
1953 سے 1964 تک سوویت یونین کی قیادت کرنے والے نکیتا خروشچیف نے سٹالن کے جائزے سے اتفاق کیا۔ اپنی یاد داشتوں میں خروشچیف نے بیان کیا ہے کہ سٹالن نے لینڈ-لیز [پروگرام] کی قدر و قیمت پر کس طرح زور دیتے ہوئے “انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر امریکہ نے ہماری مدد نہ کی ہوتی تو ہم یہ جنگ نہ جیت پاتے۔”
ایک بھولی ہوئی کہانی کو منظر عام پر لانا
ماسکو میں اتحادیوں اور لینڈ- لیز کے سابق میوزیم نے سوویت یونین کی جنگی کاروائیوں میں امریکی امداد کے طبعی ثبوت فراہم کیے۔
جب 2004 میں یہ میوزیم کھولا گیا تو سوویت مارشل کے کے روکوسووسکی کے بیٹے نے اپنے والد کی امریکہ کی بنی دوسری عالمی کی “ولیز” جیپ میوزیم کو بطور عطیہ دی۔ میوزیم نے اس وقت تک چلنے والی گاڑی کی نمائش کی۔ اس جیپ کو کبھی کبھار ڈرائیونگ کے لیے باہر نکالا جاتا تھا۔ عجائب گھر نے وردیوں کے بٹنوں کا ایک انوکھا مجموعہ بھی پیش کیا جن کے سامنے سوویت علامتیں بنی ہوئیں تھیں اور پچھلے حصے پر “میڈ ان شکاگو” کی مہریں لگی ہوئی تھیں۔
میوزیم اب فعال نہیں رہا۔ تاہم اس کے سابق ڈائریکٹر نکولائی بوروڈین، لینڈ- لیز کی کہانی کو مشتہر کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی امداد کے علاوہ، امریکہ نے روسی شہریوں کو خوراک، کپڑے اور کھلونے بھی بھیجے۔
وہ بتاتے ہیں کہ لینڈ-لیز کے تحت “ہم نے جو مانگا وہ ہمیں ملا۔”
رہنماؤں کے تاثرات
9 مئی 2005 کو نازی جرمنی کے خلاف اتحادیوں کی فتح کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر ماسکو میں ہونے والی پریڈ میں اپنی تقریر میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روسی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا- سوویت یونین کا جنگ لڑنے والی کسی بھی دوسری فوج کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان ہوا اور پوتن نے دوسری عالمی جنگ جیتنے میں اتحادیوں کی مدد کا اعتراف کیا۔
پوتن نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ “61 مملک اور دنیا کی تقریباً 80 فیصد آبادی” جنگ سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئی اور اتحادیوں کی مدد ہٹلر کو شکست دینے کا ایک لازمی حصہ تھی۔

پوتن نے کہا کہ “عزیز دوستو ہم نے کبھی بھی فتح کو اپنی اور کسی اور کی فتح میں تقسیم نہیں کیا۔ ہم اتحادیوں یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ہٹلر مخالف اتحاد کے دیگر ممالک، [پلس] فسطائیوں کے جرمن اور اطالوی مخالفین کی مدد کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔”
دہائیوں قبل اپریل 1945 میں روزویلٹ کی موت کے فوراً بعد برطانیہ کے دارالعوام سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مسلح تصادم کے دوران اتحادیوں کو امریکی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے پر مرحوم صدر کی تعریف کی۔
چرجل نے کہا کہ روز ویلٹ نے “لینڈ-لیز نامی امداد کا ایک ایسا غیرمعمولی قدم اٹھایا جو پوری تاریخ میں کسی بھی ملک کی جانب سے کیا جانے والا بے لوث ترین اور ‘شفاف ترین مالیاتی عمل بن کر سامنے آئے گا۔”
اپنے تئیں امریکی رہنما پوری طرح مطمئن تھے کہ لینڈ-لیز پروگرام نے اپنا مقصد حاصل کرنے میں مدد کی۔ اور یہ مقصد ہٹلر کی شکست تھا۔