
1950 کی دہائی میں امریکہ کا ہر دن پولیو کے خوف میں گزارتا تھا۔ سب پر ایک ہیجان سا طاری تھا کیونکہ اس کا کوئی علاج یا روک تھام نہیں تھی۔
امریکہ میں قدرتی طور پر ہونے والے پولیو کے خاتمے کے لیے امریکی معاشرے کے کم وبیش ہر ایک طبقے کو آگے آنا پڑا۔ اس میں والدین، بچے، ڈاکٹر، نامور افراد، میڈیا، غیرمنفعتی اداروں کے سربراہ اور سیاسی رہنما سبھی شامل تھے۔ اختراعات اور سیکھے جانے والے اسباق کی وجہ سے بیماریوں کی روک تھام اور اُن پر قابو پانے کے مراکز (سی ڈی سی) نے اس جنگ کو دنیا کے طول و عرض میں پھیلایا۔
پولیو مائلائٹس کا مخفف، پولیو مرکزی اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے اور مستقل معذوری یا موت کا سبب بن سکتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں اور بڑے بچوں میں یہ انفیکشن سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
بچوں میں پایا جانے والا خوف

1950 کی دہائی میں گرمیوں میں پھوٹ پڑنے والی اس وباء سے ہزاروں بچے متاثر ہو رہے تھے۔ پولیو کی وجہ سے سمندری سمندری ساحل، تیراکی کے تالاب، سینما، اور بیس بال کے میدان بند تھے۔ والدین نے اپنے بچوں کو پُرہجوم مقامات پر جانے سے روک دیا تھا۔ امریکہ میں پولیو 1952 میں وبائی شکل اختیار کر گیا اور انتہا پر چلا گیا اور اس سے 57،628 افراد متاثر اور 21،269 مفلوج ہوئے جبکہ 3،175 افراد ہلاک ہوگئے۔

پولیو: این امیریکن سٹوری (پولیو:ایک امریکی کہانی) کے مصنف اور نیویارک یونیورسٹی کے میڈیسن سکول کے طبی بشریات کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ایم اوشنسکی کہتے ہیں، “نیویارک سٹی میں چھوٹے بچے کی حیثیت سے سکول جانا مجھے یاد ہے۔ اور مجھے واپس آتے ہوئے وہیل چیئر میں کسی بچے کو (اور) ٹانگوں پر چڑھی آہنی پٹیوں والے بچے کو بھی دیکھنا یاد ہے۔ کبھی کبھار سکول کے ایک خالی ڈیسک کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ یہ بچہ اب واپس آنے والا نہیں ہے۔”
ایک صدر کا ذمہ داریوں کا سنبھالنا
گو کہ بالغ نوجوانوں اور بوڑھوں میں پولیو خال خال ہی پایا جاتا تھا، تاہم صدر فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ کو 1952 سے دہائیوں پہلے پولیو کا مرض لاحق ہو چکا تھا۔ اس بیماری نے ان پر 1921 میں حملہ کیا اور 39 سال کی عمر میں وہ چلنے کے قابل نہ رہے۔ 1938 میں صدر کی حیثیت سے روزویلٹ نے پولیو کو شکست دینے کے لیے نیشنل فاؤنڈیشن فار انفینٹائل پیریلیسز (کم سنی کے فالج کی قومی فاؤنڈیشن) کی بنیاد رکھی۔ آج یہ فاؤنڈیشن مارچ آف ڈائمز کہلاتی ہے۔

دس سینٹ کے امریکی سکے یعنی ڈائم جمع کرنے والے رضاکاروں کی فوج نے ویکسین کی تحقیق، امریکی تاریخ کے نئی دوا کے مریضوں پر کیے جانے والے سب سے بڑے تجربات، اور اُن پوسٹروں پر آنے والی لاگتیں پوری کرنے کے لیے فاؤنڈیشن کی مدد کی جن میں متاثرہ بچوں کو دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایلویس پریسلی اور مارلن منرو جیسی مشہور شخصیات نے بھی میڈیا مہموں میں شرکت کی۔
روزویلٹ نے اپنے طور پر پولیو کے خاتمے میں مدد کرنے کے لیے عوام پر زور دینے کے لیے ریڈیو کے خطابات کا استعمال کیا۔
ویکسین کی تیاری کی روشن راہ
باصلاحیت سائنس دان ایزابل مورگن نے 1940 کی دہائی میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں پولیو کی ویکسین پر کام کرنے والے محققین کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ اگرچہ وہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے یہ کام چھوڑ کر چلی گئیں، تاہم اُن کا اور سی ڈی سی کا کام پٹسبرگ یونیورسٹی کے ڈاکٹر جونس سلک کی 1954 میں پہلی پولیو ویکسین کی تیاری میں مددگار ثابت ہوا۔
ویکسین کا موثرپن معلوم کرنے کے لیے روزویلٹ فاؤنڈیشن نے لوگوں پر اُن تجربات کے انتظامات کیے جن میں نہ تو محققین کو اور نہ ہی تجربات میں حصہ لینے والوں کو علم تھا کہ آیا کسی نئی دوا کو آزمایا جا رہا ہے یا دوا کی جگہ محض کوئی بے ضرر مادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس دوران پورے امریکہ میں سکول کے لگ بھگ دس لاکھ بچوں پر یہ تجربات کیے گئے۔ 12 اپریل 1955 کو اس ویکسین کے امریکہ میں استعمال کے لیے لائسنس جاری کر دیا گیا۔

اس کے فوراً بعد ویکسین لگانے کی مہم کو ملک بھر میں پھیلا دیا گیا اور بچوں کو محفوظ طریقے سے حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے انتہائی اہم اقدامات کی نشاندہی بھی کر دی گئی۔ اِن اقدامات نے سی ڈی سی کو بیماریوں کی نگرانی کرنے کو بھی اپنے مشن میں شامل کرنے کی تحریک دی۔
سیبن سنڈیز (اتوار کے دن)
روزویلٹ فاؤنڈیشن کی مالی مدد سے ڈاکٹر البرٹ سیبن نے سی ڈی سی کے ساتھ کام کرتے ہوئے 1960 کی دہائی میں منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین تیار کی جو نہ صرف سستی تھی بلکہ اسے بچوں کو دینا بھی آسان تھا۔
آج کے بڑی عمر کے امریکیوں کو سیبن سنڈے (سیبن کے اتوار کے دن) یاد ہیں۔ پورے ملک میں پھیلا حفاظتی ٹیکوں کا یہ ایک رضاکارانہ پروگرام تھا جس میں لاکھوں بچے سیبن کی پولیو کی زندگی بخش مائع ویکسین میں بھیگا ہوا چینی کا ایک مکعب نما ٹکڑا منہ میں ڈال کر نگل لیتے تھے۔
قصہ مختصر، اِن کوششوں کے نتیجے میں امریکہ میں قدرتی طور پر ہونے والی پولیو کی بیماری کا 1979 میں مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔
امریکی سلک اور سیبن کو ہیروز کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے امریکی والدین کے ذہنوں میں بسے “شدید خوف” کو نکال دیا۔ سی ڈی سی میں حفاظتی ٹیکوں کے ماہر، ڈاکٹر سٹیفن کوچی کہتے ہیں، ” ایک ایسے انفیکشن کے لگنے اور فالج کی وجہ بننے کے حوالے سے پولیو امیر اور غریب کے لیے تباہی کا یکساں موقع تھا۔”

لیکن سی ڈی سی کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
عالمی پیمانے پر پولیو کے خلاف جنگ
صحت کی عالمی اسمبلی کی دنیا بھر میں اس بیماری کے خاتمے کے لیے ایک متفقہ قرارداد کی حمایت کے بعد، امریکہ نے 1988 میں پولیو کے عالمگیر خاتمے کے ابتدائیے کے آغاز میں مدد کی۔
اس ابتدائیے کے دیگر چار شراکت داروں میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، روٹری انٹرنیشنل، یونیسف اور صحت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) شامل ہیں۔ 1990 کی دہائی سے اب تک امریکی کانگریس عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی کوششوں کے لیے سی ڈی سی کے لیے کئی ملین ڈالر مختص کر چکی ہے۔

سال 2018 تک قدرتی طور پر لگنے والے پولیو کے 30 سے کم مریض صرف دو ممالک یعنی افغانستان اور پاکستان میں سامنے آئے۔ مقصد اس تعداد کو صفر پر لانا ہے۔