صدر وُڈ رو ولسن کے پہلی عالمی جنگ سے دور رہنے سے انہیں نومبر 1916 میں قلیل اکثریت سے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں مدد ملی۔ مگر پانچ ماہ بعد انھوں نے ان الفاظ کے ساتھ ملک کو جرمن سلطنت کے خلاف جنگ کے لیے بلا لیا: “دنیا کو جمہوریت کے لیے ہرگز محفوظ بنانا چاہیے۔۔۔۔۔۔ ہمیں اپنے کوئی خود غرضانہ مقاصد پورے نہیں کرنے۔ ہمیں فتح کی، کسی سلطنت کی کوئی خواہش نہیں۔”
اب 100 برس بعد، امریکہ اس جنگ میں اپنے کردار کی یاد تازہ کر رہا ہے جس نے یورپ کو ایک مقتل میں تبدیل کر دیا تھا اور یہ صرف اس وقت ختم ہوئی جب امریکی اس جنگ میں شامل ہوگئے۔

اس جنگ کا آغاز 1914 میں ہوا جب ایک انتشارپسند نوجوان نے آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کو قتل کر دیا۔ جرمن فوجوں نے جلد فتح حاصل کرنے کی آس میں، بیلجیم پر اور فرانس کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن جنگ طول پکڑ گئی اور دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیل گئی۔
برطانیہٰ، فرانس اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ہمدردی کے باوجود، جنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکہ غیر جانبدار رہا۔ اتحادیوں کے ساتھ تجارتی رشتے بدستور مضبوط رہے۔ سمندروں پر برطانوی بحریہ کا تسلط قائم رہا — اس طرح جرمنی کو اہم اشیاء تک رسائی سے روک دیا گیا۔ جرمنی نے ‘یو بوٹس’ کہلانے والی آبدوزوں کے ذریعے اتحادیوں کی بحری ناکہ بندی کو توڑنے کی کوشش کی۔ یو بوٹ آبدوزوں نے فوجی، تجارتی اور سویلین بحری جہازوں کو ڈبو دیا۔ ان میں 1915ء میں ڈبویا جانے والا مسافربردار بحری جہاز لوسیٹانیا بھی شامل تھا۔ اس پر سوار ہلاک ہونے والے 1,198 افراد میں سے 128 امریکی تھے۔

اس جنگ کا نقطۂ عروج وہ تھا جب جرمنی نے بلا روک ٹوک آبدوزوں کی جنگ دوبارہ شروع کر دی اور زمرمین ٹیلیگرام اتحادیوں کے ہاتھ لگ گئی۔ اس ٹیلیگرام سے جرمنی کی یہ سازش آشکار ہو گئی کہ اگر میکسیکو امریکہ پر حملہ کر دے تو وہ ٹیکسس، نیومیکسیکو اور ایریزونا کے دوبارہ حصول میں میکسیکو کی مدد کرے گا۔
جب اپریل 1917 میں امریکہ اس جنگ میں شامل ہوا، تو امریکی فوج کے پاس سپاہیوں کی کُل تعداد 130,000 تھی۔ اس کے پاس کوئی ٹینک نہیں تھے اور صرف چند ہوائی جہاز تھے۔ کانگریس نے فوجی طاقت بڑھانے کے لیے بڑی تیزی سے جبری بھرتی کی منظوری دے دی۔ ایک جرمن ایڈمرل نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ بہت کم امریکی جنگجو یورپ پہنچ سکیں گے کیوں کہ یو بوٹس ان کا راستہ روک دیں گی۔
لیکن وہ یورپ پہنچ گئے۔ پیرس میں اس معزز فرانسیسی شخصیت کے مقبرے پر جس نے امریکی انقلاب میں مدد دی تھی، ایک کرنل نے اعلان کیا، “لیفی اٹ، ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔”
دیرپا اثر
تین سال سے زیادہ عرصے تک خندقوں سے جنگ لڑتے لڑتے اتحادی فوجیں نڈھال ہو چکی تھیں اور اُن کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ جنگ کے آخری سال میں امریکیوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا، بالخصوص ایسے وقت میں جب جرمن فوجوں نے آخری دھاوا بولا۔ امریکہ کی مہماتی فوج کی جس کے فوجیوں کو بعض اوقات “ڈو بوائے” بھی کہا جاتا تھا، آمد سے جنگ کے آخری مہینوں میں اتحادیوں کی صفوں میں استقامت پیدا ہوئی، اور جرمن فوجوں کے حوصلے پست ہو گئے۔
چالیس لاکھ امریکیوں نے فوج میں خدمات انجام دیں۔ ان میں سے 20 لاکھ یورپ بھیجے گئے اور 14 لاکھ نے لڑائی میں حصہ لیا۔ انھوں نے مارن میں جرمنوں کو پیچھے دھکیلنے میں مدد دی، اور کینٹگنی، شیٹو تھیری، بیلاؤ وُڈ اور سینٹ میحیل میں افسانوی طرز کے عظیم معرکے انجام دیے۔
اپنے ضمیر کی آواز پر اعتراض کرنے والے ایک فوجی، سارجنٹ ایلون یارک نے فوجی کارناموں کی داستانوں میں اپنا نام اُس وقت رقم کیا جب انھوں نے آرگون فاریسٹ میں چھپی ہوئی ایک مشین گن کی پوسٹ پر حملہ کیا اور دشمن کے 125 سے زیادہ سپاہیوں کو ہلاک کر ڈالا یا گرفتار کر لیا۔

ولسن کے سوانح نگار سکاٹ برگ نے ‘ورلڈ وار ون اینڈ امیریکا: ٹولڈ بائی دا امیریکنز وُو لِوڈ اِٹ” [پہلی عالمی جنگ اور امریکہ: جنگ میں لڑنے والوں کی زبانی] میں لکھا ہے،’ “پہلی عالمی جنگ نے امریکی کردار کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا۔” جنگ کے ابتدائی دور میں، دوردراز ملکوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان فراہم کرنے کے بعد، امریکہ نے ایک اخلاقی اصول کی بنا پر آگے قدم بڑھایا، اور امن اور آزادی کے نام پر پورے ملک کو اس عہد کا پابند کر دیا۔“

جنگ نے بین الاقوامی امور میں امریکہ کے قائدانہ کردار کی توثیق کر دی۔ ملک کے اندر، اس کی وجہ سے حکومت کے حجم اور اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا، اور جب ہزاروں عورتیں فوج میں شامل ہوئیں اور انھوں نے فیکٹریوں میں سخت محنت کی، تو انہیں ووٹ دینے کا حق حاصل کرنے میں بھی مدد ملی۔ فرانس میں افریقی نژاد امریکی فوجی بڑی بہادری سے لڑے، اور پھر انھوں نے ملک کے اندر کئی عشروں پر مشتمل امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔


حب الوطنی کے جذبے نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کا اظہار جارج ایم کوہن کے مسحور کن نغمے “Over There,” میں، لبرٹی بانڈز خریدنے کی مہموں میں، اور اُن پوسٹروں میں ہوا جن میں لوگوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں اور کھانے پینے کی اشیاء کو ضائع نہ ہونے دیں۔
عظیم ترین قربانی
11 نومبر، 1918 تک — جو جنگ بندی کی یاد منانے کا دن ہے — 90 لاکھ فوجی اور 50 لاکھ سویلین ہلاک ہو چکے تھے۔ یہ سب صرف جنگ میں ہی نہیں مارے گئے تھے بلکہ ان میں سے کئی ایک وباؤں اور بھوک کا شکار ہوئے۔

اگرچہ امریکہ کی دی ہوئی قربانیاں جنگ میں شامل اپنے دوسرے بڑے ساتھی فریقین کے برابر تو نہیں تھیں، تاہم امریکہ کے 116,516 فوجی ہلاک ہوئے۔ ان میں لیفٹیننٹ کوئنٹن روزویلٹ بھی شامل تھے جو سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور جنہیں فرانس کے اوپر پرواز کرتے ہوئے مارگرایا گیا تھا۔
مرنے والوں کی یاد میں یورپ اور امریکہ کے طول و عرض میں یادگاریں تعمیر کی گئیں۔ 11 نومبر، 1921 کو آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں، صدر وارن ہارڈنگ نے نامعلوم سپاہی کی قبرکی یادگار کا افتتاح کیا جس میں ‘ڈو بوائے’ کہلانے والے ایک امریکی سپاہی کی باقیات رکھی گئی ہیں۔ ہارڈنگ نے کہا، “ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آیا تھا، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس کی موت ایک ایسے امریکی کی موت کی ابدی یادگار ہے جس نے اپنے ملک کے لیے جان قربان کردی۔”