
پلاسٹک کی آلودگی دور دراز انٹارکٹکا میں کسی جانور کے پیٹ سے لے کر افریقی خطے ساحل کے درختوں اور ہمالیہ کے بلند ترین پہاڑوں تک کرہ ارض کے ہر ایک مقام کو متاثر کرتی ہے۔ اس انحطاط میں صدیاں لگ سکتی ہیں۔
دنیا ہر سال تقریباً 272 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتی ہے۔ یہ لگ بھگ پوری انسانی آبادی کے وزن کے برابر ہے۔ اور اس کچرے میں سے 7 ملین میٹرک ٹن سالانہ سے تھوڑا سا زیادہ سمندر میں جا گرتا ہے۔
امریکہ میں نجی اور سرکاری شعبے عالمی سطح پر پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پلاسٹک کے خلاف جنگ میں امریکی حکومت کا قائدانہ کردار
امریکی محکمہ خارجہ نے اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق عالمی معاہدے کے لیے بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
محکمہ خارجہ کے سمندروں اور بین الاقوامی ماحولیاتی اور سائنسی امور کے بیورو کی اسسٹنٹ سکریٹری، مونیکا میڈائنا نے کہا، “پلاسٹک کی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے جو ماحولیات، خوراک کی حفاظت، سمندری نقل و حمل، سیاحت، اقتصادی استحکام، وسائل کے انتظام اور ممکنہ طور پر انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے۔”
Plastic pollution that enters the ocean is indifferent to political boundaries. This week at the @UN Environment Assembly 5.2, the United States is working with our counterparts to find innovative solutions to this global problem. #UNEA pic.twitter.com/YNEgP40nPw
— Department of State (@StateDept) February 28, 2022
“پلاسٹک کی آلودگی، خاص طور پر سمندری پلاسٹک کی آلودگی، سیاسی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور اس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
محکمہ خارجہ اور ماحولیاتی تحفظ کا ادارہ وسطی امریکی ممالک اور ڈومینیکن ری پبلک کی” سمندر میں زمینی ذرائع سے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے سمیت ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کی صلاحیت کو بہتر بنانے” میں مدد کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کا ادارہ سمندر میں موجود پلاسٹک کے ملبے سے نمٹنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کو کئی ملین ڈالر کی رقم بھی بطور امداد دے چکا ہے۔
نجی شعبے کی اس کام میں شمولیت
امریکہ اور دنیا بھر کی 850 کمپنیوں کے مابین پلاسٹک کی ایک گردشی معیشت قائم کرنے کی کوشش میں یو ایس پلاسٹک پیکٹ [پلاسٹک کا امریکی معاہدہ] سال 2020 میں تشکیل دیا گیا۔ پلاسٹک معیشت سے مراد نیا پلاسٹک بنانے کی بجائے استعمال شدہ پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کرنا ہے۔
معاہدے میں شریک امریکی نجی شعبے کی کمپنیاں پلاسٹک کی پیکیجنگ کی امریکی سپلائی کے ایک تہائی حصے کی نمائندگی کرتی ہیں۔

گزشتہ جون میں ‘ پلاسٹک معاہدے’ میں 2025 تک پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چار اہداف مقرر کیے گئے:-
- 2021 تک پیکیجنگ کی اُن اشیا کی ایک فہرست مرتب کی جائے جو یا توغیرضروری ہیں یا مسائل پیدا کرتی ہیں اور 2025 تک اِن اشیاء کو ختم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
-
- اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ 2025 تک پلاسٹک کی 100% پیکیجنگ کو دوبارہ استعمال کیا جا سکے، ری سائیکل یا محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جا سکے۔
- 2025 تک 50% پلاسٹک پیکیجنگ کو مؤثر طریقے سے ری سائیکل کرنے یا محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔
- 2025 تک اوسطاً 30% ری سائیکل مواد حاصل کیا جائے یا ذمہ دار طریقے سے قدرتی طور پر پیدا ہونے والا مواد حاصل کیا جائے۔
جنوری میں پلاسٹک پیکٹ نے مشروبات پینے کے لیے استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی نلکیاں، چھری کانٹے، ہلانیوں کے ساتھ ساتھ ری سائیکل یا محفوظ طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جا سکنے والے پی وی سی، پی ایف اے ایس اور پی ای ٹی جی جیسے کمییائی مادوں کے حامل پلاسٹک کی وجہ سے مسائل پیدا کرنے والے پلاسٹکوں کی ایک فہرست جاری کی۔ امریکہ کے پلاسٹک کے معاہدے کے ممبران 2025 تک ان اشیاء کے متبادلات کے بارے میں ہدایت نامہ تیار کریں گے۔
“ری سائیکلنگ پارٹنرشپ فار سرکلر وینچرز” نامی غیرسرکاری تنظیم کی نائب صدر، سارہ ڈیرمین نے کہا، “امریکہ کے پلاسٹک کے معاہدے کے پیکیجنگ کو فروغ دینے، ری سائیکلنگ کو بہتر بنانے اور پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنے کی کوششوں کے نتائج سے پورے نظام اور تمام مواد کو فائدہ پہنچے گا۔”