امریکہ پوری دنیا میں اساتذہ بھیجتا ہے۔

75 سال سے زیادہ عرصے سے امریکی محکمہ خارجہ اپنے تعلیمی تبادلوں کے پروگراموں کے ذریعے امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دیتا چلا آ رہا ہے۔

یہ تبادلے ‘ فلبرائٹ ٹیچر ایکسچینج پروگرام’ [اساتذہ کے تبادلے کا فلبرائٹ پروگرام]  اور ‘ انگلش لینگویج فیلو، سپیشلسٹ اور ورچوئل ایجوکیٹر پروگرامز’ [انگریزی زبان کے فیلو، ماہرین اور ورچوئل اساتذہ پروگراموں] کے ذریعے عمل میں لائے جاتے ہیں۔ محکمے کے تعلیمی اور ثقافتی امور کے بیورو کے تعاون سے یہ پروگرام امریکی اساتذہ کو اپنےغیرملکی ہم منصبوں اور طلباء کے ساتھ تدریسی طریقے شیئر کرنے، مل کر کام کرنے اور نئے نقطہائے نظر کے بارے میں جاننے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

فلبرائٹ پروگرام

فلبرائٹ ٹیچر ایکسچینج پروگرام دراصل فلبرائٹ پروگرام کا حصہ ہے۔ اس کے تحت امریکی اساتذہ اور منتظمین کو نئے تعلیمی طریقوں کو سیکھنے، اسباق کے منصوبے تیار کرنے اور اپنی مہارتوں کا اشتراک کرنے کے لیے ایک سمسٹر تک بیرونی مملک میں بھیجا جاتا ہے۔ وہ تحقیق کرتے ہیں، سکولوں میں جاتے ہیں اور اپنی میزبان کمیونٹیوں میں اپنے رفقائے کار اور طلباء کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ تبادلے کے اِن پروگراموں کے تحت اسی طرح بیرونی ممالک کے ماہرین تعلیم بھی امریکہ آتے ہیں۔

2017 اور 2018 میں پیرو میں کام کرنے کے بعد سینٹ لوئس کے علاقے کی ماہر تعلیم، جوئل میکانٹاش بہت سارے علم، نئے رابطوں اور بڑھی ہوئی خود اعتمادی کے ساتھ وطن واپس لوٹیں۔ اب وہ خود کو “عالمی قابلیت اور سمجھ بوجھ کا چیمپئن” کہتی ہیں۔

“میں اس زبردست نیٹ ورک کا حصہ بننے پربہت خوش ہوں اور اُن اثرات کی منتظر ہوں جو ہم عالمی تعلیم پر ڈالیں گے۔”

انگریزی زبان کے پروگرام

انگلش لینگویج فیلو، سپیشلسٹ اور ورچوئل ایجوکیٹر پروگراموں کے تحت امریکی ماہرین تعلیم کو امریکی سفارت خانے کے نامزد کردہ پراجیکٹوں پر کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اِن پراجیکٹوں کا مقصد میزبان ممالک میں انگریزی زبان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اِن کے شرکاء کے پاس گریجوایٹ ڈگریاں ہونا چاہئیں اور انہیں دوسری زبانیں بولنے والوں کو انگریزی زبان پڑھانے میں مہارت حاصل ہونا چاہیے۔

فیلو پروگرام کے شرکاء میزبان ملک کے اداروں میں 10 ماہ تک طلباء کو پڑھاتے ہیں اور اساتذہ کو تربیت دیتے ہیں۔

 تصویر میں کمرے میں ایک مرد اور دو عورتیں کھڑی مسکراتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں (Courtesy Joe Voigts)
جو ووائٹس اسرائیل میں اپنے 2019 کے پراجیکٹ کے دوران یروشلم کے ڈیوڈ ییلن کالج آف ایجوکیشن میں اپنے دو تدریسی طالب علموں یعنی اٹارا (درمیان میں) اور ایٹیل کے ساتھ ہیں۔ (Courtesy Joe Voigts)

جو ووائٹس یونیورسٹی آف شکاگو کے چارٹر سکول میں انگریزی کے استاد ہیں۔ وہ یروشلم میں 2019-2020 کے تعلیمی سال کے دوران انگریزی زبان کے فیلو رہ چکے ہیں۔ وہاں پر انہوں نے اسرائیلی اور فلسطینی طلباء کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس پروگرام میں اُن “لمحات کے لیے [شامل ہوا] … جب میں کسی ایسے فرد کے ساتھ ہمدردی کر سکوں جو مجھ سے بہت مختلف ہونے کے باوجود میرے جیسا ہو۔”

سپیشلسٹ پروگرام میں اعلیٰ درجے کے انگلش سکھانے والے ماہرین، انگریزی زبان کے اعلیٰ درجے کے پراجیکٹوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ ماہرین کسی بیرونی ملک میں تین ماہ کے لیے کام کرتے ہیں۔ تاہم ورچوئل پراجیکٹوں میں یہ مدت مختلف بھی ہو سکتی ہے۔

 عینک پہنے ایک سفید فام کے اردگرد کھڑے سیاہ فام لوگ (Courtesy Rob Danin)
2016 میں راب ڈینین کے اردگرد تنزانیہ کے طلبا کھڑے ہیں (Courtesy Rob Danin)

راب ڈینین یونیورسٹی آف کولوراڈو، کولوراڈو سپرنگز کے کالج آف ایجوکیشن کے ایک سابق استاد ہیں۔ وہ 2016 میں تنزانیہ میں پڑھانے کے لیے انگلش سپیشلسٹ پروگرام میں شامل ہوئے۔ اس سے قبل وہ روسی مشرق بعید میں دو سال (2012–2014) تک کام کر چکے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اِن ثقافتوں میں رہ کر انہیں زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا ہے اور اپنی تدریسی صلاحیتوں کو بہتر بنایا ہے۔

ورچوئل ایجوکیٹر پروگرام میں ورچوئل، آن لائن پروجیکٹ شامل ہوتے ہیں۔ اِن پروگراموں کا دورانیہ جو کئی ہفتوں یا تعلیمی سمسٹر تک چل سکتا ہے۔ شرکاء انگریزی پڑھاتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کے اداروں کے انگریزی اساتذہ کو تربیت دیتے ہیں۔

نارتھ کیرولائنا کے ڈرہم ٹیکنیکل کمیونٹی کالج میں آرٹ کے مقاصد کے لیے انگریزی پڑھانے والی مایون گرینزو 2020 میں ورچوئل انگلش لینگویج فیلو بنیں۔

 کمپیوٹر کے سامنے بیٹھیں ایک سیاہ فام خاتون (Courtesy Mayonne Granzo)
ورچوئل فیلو، مایون گرینزو جبوتی میں (Courtesy Mayonne Granzo)

گرانزو کو روابط بنانے اور دوسری ثقافتوں اور تعلیمی نظاموں کے بارے میں سیکھنا اچھا لگتا ہے۔ انہوں نے امریکہ منتقل ہونے سے پہلے جنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک گیانا میں پرورش پائی۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے طلبا کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں میرا پس منظر مددگار ثابت ہوا۔