خلیج فارس میں واقع آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں کے آنے جانے کے لیے تین تین کلومیٹر کے راستوں والی اس آبنائے کا شمار دنیا کی تنگ ترین سمندری راہداریوں میں ہوتا ہے۔ یہ اہم ترین عالمی راہداریوں میں سے ایک راہداری ہے کیونکہ دنیا بھر میں سمندری راستے سے خریدے جانے والے خام تیل کی مجموعی مقدار کا ایک تہائی حصہ روزانہ یہاں سے گزر کر جاتا ہے۔

ایرانی حکومت کی طرف سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمیکوں کے بعد وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جولائی میں کہا، “دنیا کو علم ہونا چاہیے کہ امریکہ پوری دنیا کے لیے تیل کی باربرداری کی راہداری کی دستیابی کی خاطر سمندری راستوں کو کھلا رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔”

آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل کی 85 فیصد سے زیادہ مقدار ایشیائی ممالک کو جاتی ہے جن میں زیادہ تر تیل جاپان، بھارت، جنوبی کوریا اور چین کو جاتا ہے۔

امریکی بحریہ کے کیپٹن بل اربان نے بتایا کہ امریکی بحریہ کے جوان، شراکت کار اور علاقائی اتحادی “آزاد جہاز رانی اور تجارتی سامان کی آزادانہ نقل و حمل کو قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے یقینی بنانے کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔”

Map showing Strait of Hormuz and nearby countries (State Dept./D. Thompson)
آبنائے ہرمز اپنے تنگ ترین مقام پر 34 کلومیٹر چوڑی ہے اور دونوں طرف سے آنے جانے والے جہازوں کے لیے تین تین کلومیٹر کے سمندری راستے ہیں جس کی وجہ سے اس میں روزانہ 14 جہاز داخل ہو سکتے ہیں اور 14 نکل سکتے ہیں۔ (State Dept./D. Thompson)

عراق، ایران، بحرین، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، سب کے سب کا خام تیل آبنائے ہرمز کے سمندری راستے سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں داخل ہوتا ہے اور پھر دنیا بھر کی بندرگاہوں میں پہنچتا ہے۔ قطر مائع قدرتی گیس کی اچھی خاصی مقدار بھی آبنائے ہرمز سے باہر بھجواتا ہے۔

اقوام متحدہ کے 1982 کے سمندری قوانین کے کنونشن کے مطابق گو کہ ایران اور اومان کو اپنے ساحلوں سے سمندری پانیوں تک علاقائی حقوق حاصل ہیں، مگر ہرمز ایک “بین الاقوامی آبنائے ہے” ( جہاں سے تمام بحری جہازوں کو راستے سے گزرنے کے حقوق حاصل ہیں) کیونکہ یہ خلیج فارس سے کھلے سمندر تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔

درحقیقت  مشرقِ قریب اور برصغیر ہند کے تاجر تین ہزار سال قبل مسیح سے آبنائے ہرمز کے ذریعے سامان لاتے لے جاتے رہے ہیں اور مشرقِ قریب اور بعد میں یورپی تہذیبوں کو جنوب، جنوب مشرقی اور مشرقی ایشیا کی ہم عصر تہذیبوں کے ساتھ ملاتے رہے ہیں۔

آبنائے ہرمز کے تحفظ کی ایک طویل امریکی تاریخ ہے۔ وزیر خارجہ پومپیو نے کہا، “امریکہ نے یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی ہے کہ ہم اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ سمندری راستے کھلے رہیں۔ طویل عرصے سے امریکہ کی یہی پالیسی چلی آ رہی ہے اور یہ یقینی بنائے کے لیے کہ ایسا ہی ہو، ہم تیار ہیں۔”