
لوگوں کی ایک روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد بھوک اور خوراک کی قیمتوں میں روزافزوں اضافے سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ ایسے میں امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لا رہا ہے۔
مسلح تصادم، موسمیاتی بحران اور رسدی سلسلوں میں تاخیروں کا شمار خوراک کے عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات میں ہوتا ہے۔ یہ مسائل مئی کے مہینے کے دوران جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت امریکہ کے پاس ہوگی، توجہ کا مرکز ہوں گے۔
18 مئی کو امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نیویارک میں اقوام متحدہ کے ایک ایسے وزارتی اجلاس کی میزبانی کریں گے جس میں خوراک کی سلامتی کے لیے بین الاقوامی عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں تقریباً وہ 35 ممالک شرکت کریں گے جو یا تو بھوک اور خوراک کی کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور یا وہ مدد کرنے کی بہترین حالت میں ہیں۔
اس کے بعد اگلے دن وزیر خارجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے جس میں تنازعات اور غذائی تحفظ کے درمیان تعلق پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس میں خاص طور پر یوکرین کے خلاف روس کی جنگ پر توجہ دی جائے گی جس کی وجہ سے تجارت متاثر ہوئی ہے اور اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے 3 مئی کو واقعات کا پیشگی جائزہ لیتے ہوئے کہا، “ہم ان لاکھوں لوگوں سے منہ نہیں موڑ سکتے جو اس بارے میں پریشان ہیں کہ انہیں اگلے وقت کا کھانا کہاں سے ملے گا یا وہ اپنے خاندانوں کو کیا کھلائیں گے۔”

یہ ایک بہت بڑی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام کی ایک نئی رپورٹ سے مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے ہیں:-
- سال 2021 کے دوران 53 ممالک میں 193 ملین افراد کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔
- 24 ممالک میں 139 ملین افراد کو متاثر کرنے والے غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجہ تصادم ہیں۔
- ایتھوپیا، جنوبی مڈغاسکر، جنوبی سوڈان اور یمن میں 570,000 افراد کو خوراک کےعدم تحفظ کے شدید ترین واقعات کا سامنا ہے۔
امریکی حکومت اپنے پروگراموں کے ذریعے خوراک کی حفاظت کو مضبوط بناتی ہے۔ اس کی ایک مثال امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کی زیر قیادت چلنے والا ‘ فیڈ دا فیوچر’ نامی پروگرام ہے۔ امریکہ دوسرے ممالک اور کثیر الجہتی اداروں کے ساتھ مل کر بھی کام کرتا ہے۔ ان میں اقوام متحدہ کا خوراک کا عالمی پروگرام، اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم، زراعت اور خوراک کی عالمگیر سلامتی کا پروگرام اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔

معروف زرعی ماہر کیری فاؤلر نے حال ہی میں محکمہ خارجہ میں امریکہ کے خصوصی ایلچی برائےغذائی سلامتی کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ اُس امریکی کوشش کی رہنمائی کرنے میں مدد بھی کریں گے جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ مقامی کسانوں کو مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا بھی شامل ہے۔
اس کی چند ایک مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں:-
- نائیجیریا میں فیڈ دی فیوچر پروگرام کے تحت سیلاب اور خشک سالی کے حالات سے نمٹنے کے لیے چاول اور مچھلی کی فارمنگ کو یکجا کر کے مقامی لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے۔
- ایشیا میں، فیڈ دی فیوچر پروگرام کے تحت بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان کے مقامی کسانوں کو پانی اور موسمی حالات کی نگرانی میں مدد کرنے کے لیے سیٹلائٹ ڈیٹا کو استعمال کیا جاتا ہے۔
- ہیٹی میں یو ایس ایڈ کے ایک پروگرام کے تحت کسانوں کی ایک مقامی زرعی کاروباری تنظیم کے ذریعے نئی منڈیاں کھولنے میں مدد کی جاتی ہے۔

بحرانی حالات سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے کمشنر، یانیز لینارچِک نے کہا، “اگر ہم خوراک کے کسی بڑے عالمی بحران کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بین الاقوامی برادری اس کام کے لیے تیار ہے۔”