تائیوان کا شمار امریکہ کے سب سے قابل اعتماد اور اہم ترین شراکت داروں میں ہوتا  ہے۔

محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سکریٹری، ڈیوڈ آر سٹِل ویل نے 31 اگست کو ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ایک آن لائن پروگرام میں امریکہ اور تائیوان کے تعلقات کی مضبوطی پر زور دیا۔ انہوں نے امریکہ اور تائیوان کے درمیان فوجی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات پر بات کی۔

سٹِل ویل نے یہ بات واضح کی کہ امریکہ اپنی ‘ ایک چین’ کی دیرینہ پالیسی کو برقرار رکھے ہوئے ہے، لیکن تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑہا رہا ہے۔ اس میں بیجنگ کے عدم استحکام پیدا کرنے والے رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی شراکت کاری اور تعاون بھی شامل ہے۔

سٹِل ویل نے کہا، “امریکہ تائپے کے ساتھ گہرے، قریبی اور غیر سرکاری دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھ رہا ہے، جن میں تائیوان کو اپنے دفاع میں مدد دینے کے وعدے بھی شامل ہیں۔” امریکہ “خطے میں امن اور استحکام کو بیجنگ کی جانب سے روز افزوں لاحق خطرات کی بہتر عکاسی کرتے ہوئے … تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات میں کچھ اہم تبدیلیاں کر رہا ہے۔”

سٹِل ویل نے تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق اُن چھ یقین دہانیوں کو دہرایا جو واشنگٹن نے 1982ء میں تائپے کو کرائی تھیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ نے اُن دو سفارتی تاروں کو عام کر دیا ہے جن میں صدر رونالڈ ریگن نے تائیوان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ:

  • تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت ختم کرنے کے لیے کوئی تاریخ مقرر کرنے پر رضامند نہیں ہوا۔
  • تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے میں عوامی جمہوریہ چین سے مشورہ کرنے پر رضا مند نہیں ہوا۔
  • تائپے اور بیجنگ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا۔
  • تائیوان اور امریکہ کے تعلقات کے قانون میں تبدیلیاں کرنے پر رضامند نہیں ہوا۔
  • نے تائیوان کی خود مختاری سے متعلق اپنے موقف کو نہیں بدلا۔
  • تائیوان پر پی آر سی کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گا۔

عام کی جانے والی تاروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے لگ بھگ 40 سال تک تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے کے معاملے میں ایک ایسا مستقل موقف اختیار کیے رکھا جو بیجنگ کی ترمیم پسندانہ تاریخ کو رد کرتا ہے۔ سٹِل ویل نے کہا کہ کیونکہ پی آر سی کی پیپلز لبریشن آرمی اپنی جدیدیت اور استعدادوں میں اضافہ کر رہی ہے، اس لیے امریکہ، تائیوان کی قابل اعتبار مزاحمت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے گا۔

سٹِل ویل نے کہا، “ہم تائپے کی چینی کمیونسٹ پارٹی کی دباؤ ڈالنے، دھمکیاں دینے، اور غیر اہم بنانے کی مہم کی مزاحمت کرنے میں مدد کرتے رہیں گے۔ امریکہ کا بنیادی مفاد یہ ہے کہ تائیوان کے سوال کو پرامن طریقے سے، بغیر ڈرائے دھمکائے، اور ایسے انداز سے حل کیا جائے جو آبنائے [تائیوان] کے دونوں طرف کے لوگوں کو قابل قبول ہو۔”

بحری جنگی جہاز کے عرشے سے سمندر اور بادلوں کا ایک منظر (U.S. Navy/Mass Communication Specialist 3rd Class Cody Beam)
گائیڈڈ میزائلوں سے لیس تباہ کن جہاز، یو ایس ایس مسٹن بحیرہ مشرقی چین میں 18 اگست کو بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے میں سلامتی اور استحکام کی مدد کی خاطر معمول کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔(U.S. Navy/Mass Communication Specialist 3rd Class Cody Beam)

 اقتصادی روابط کو مضبوط بنانا

سٹِل ویل نے امریکہ اور تائیوان کے ایک نئے اقتصادی مکالمے کا بھی اعلان کیا جو “ہمارے اقتصادی تعلقات کے تمام شعبوں” کا احاطہ کرے گا۔

انہوں نے سیمی کنڈکٹر کی تائیوانی کمپنی، ٹی ایس ایم سی کی مئی میں اعلان کردہ 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اگست میں تائیوان کے امریکی گوشت اور سور کے گوشت کی درآمد کی راہ میں حائل دیرینہ رکاوٹیں دور کرنے کے فیصلے کی بھی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ اِن پیشرفتوں کے بعد، “میں توقع کرتا ہوں کہ تائیوان، امریکہ کا مزید اہم تجارتی شراکت کار بن جائے گا۔”

  ایک سیاسی مثال قائم کرتے ہوئے

سٹیل ویل نے تائیوان کی اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی آزادی کی حامل آزاد جمہوری حکمرانی کے روشنی کے مینار کی حیثیت سے تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اُن آزاد اور کھلے انتخابات کی بھی تعریف کی جن کی ہر کہیں لوگ تمنا رکھتے ہیں۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ تائیوان کے کووڈ-19 کے ردعملوں کا شمار دنیا کے موثرترین ردعملوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ بیجنگ کے ڈراؤ دھمکاؤ کو مسترد کریں اور بین الاقوامی تنظیموں میں تائیوان کی شرکت کی حمایت کریں.

تائیوان “ایک جمہوری چینی معاشرے اور نظام مملکت کے تصور (کی عملی شکل) ہے جو خوشحال، ہم آہنگ، آزاد ہے، اور جس کا دنیا بھر کے لوگ احترام کرتے ہیں۔”

انہوں نے کہا، “امریکہ، تائیوان جیسے ایک اچھے دوست کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے جتنا خوش ہے اس سے زیادہ خوش ہوا نہیں جا سکتا۔”