دنیا کی شہرہ آفاق عمارتوں میں شمار ہونے والے ‘ نوٹرے ڈام دو پیرس’ کا امریکییوں کے دل میں ہمیشہ ایک خاص مقام رہا ہے۔ شاندار طرز تعمیر، رنگین شیشوں والی بڑی بڑی کھڑکیوں اور بیش قیمت فن پاروں والا ازمنہ وسطٰی کے گوتھک طرزِ تعمیر کے اس کیتھیڈرل کو پیرس آنے والے کسی بھی شخص کے لیے دیکھنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ امریکیوں نے اس شاندار اور خوبصورت عبادت گاہ اور فرانسیسی تہذیب کی علامت کو گلے لگایا ہے۔
ذیل میں پیرس کے اس عالی شان شاہکار کے ساتھ امریکہ کے پائیدار تعلق کی کچھ تصاویر دی جا رہی ہیں:-

جولائی 2017 میں فرانس کے دورے کے دوران امریکہ کی خاتون اول میلانیا ٹرمپ کو فرانس کی خاتون اول برجیٹ میکرون کے ہمراہ نوٹرے ڈام کا خصوصی دورہ کرایا گیا۔

وسط میں بیٹھے فرانس میں امریکہ کے سفیر، چارلس بوہلن 1963ء میں صدر جان ایف کینیڈی کے لیے غائبانہ دعا میں شریک ہیں۔

امریکی اداکار وین جانسن اور برطانوی نژاد امریکی اداکارہ ایلزبیتھ ٹیلر دریائے سین کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھے ہیں جب کہ پس منظر میں نوٹرے ڈام دکھائی دے رہا ہے جس پر چراغاں کیا ہوا ہے۔ یہ منظر 1954ء میں ڈائریکٹر رچرڈ بروکس کی ” دا لاسٹ ٹائم آئی سا پیرس” [آخری بار جب میں نے پیرس دیکھا] کے نام سے بنائی جانے والی فلم سے لیا گیا ہے۔

سابقہ امریکی فوجیوں کے کمشنر، لیوس کے گوگ اپنی اہلیہ کے ہمراہ 1953ء میں دریائے سین کے بائیں کنارے پر چہل قدمی کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے بلند قامت نوٹرے ڈام ایستادہ ہے۔

دائیں جانب بیٹھے ہوئے صدر رچرڈ نکسن دیگر سربراہانِ مملکت اور یورپ کے شاہی خاندانوں کے ہمراہ 12 نومبر 1970 کو نوٹرے ڈام میں فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال کی تدفین میں شریک ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944ء میں پیرس کو آزاد کرانے کے موقع پر نوٹرے ڈام کے سائے میں پیرس کے باسیوں نے امریکی فوجیوں کا استقبال کیا۔

6 جون 2009 کو صدر اوباما اور اُن کے اہل خانہ نے نوٹرے ڈآم کے اندر موم بتیاں روشن کیں۔