مخففاً ڈبلیو پی ایس حکمت عملی کہلانے والی عورتوں، امن، اور سلامتی  سے متعلق اپنی حکمت عملی کے ذریعے امریکہ عورتوں کو با اختیار بنا رہا ہے۔

2017ء میں امریکی حکومت نے عورتوں، امن، اور سلامتی کا قانون منظور کیا۔ اس طرح امریکہ عورتوں کے تصادموں کی روک تھام اور امن کی تربیت کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع قانون بنانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔

عورتوں کی بامعنی شرکت کو فروغ دینے کی حکومت کی اجتماعی سوچ، امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی ایک ترجیح ہے۔

اس سال ڈبلیو پی ایس قانون اور عورتوں کی معاشی اور سیاسی با اختیاری پر توجہ مرکوز کرنے کی خاطر، امریکہ نے عورتوں، امن، اور سلامتی سے متعلق امریکی کونسل تشکیل دی۔

ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی میزبانی میں 7 اکتوبر کو ہونے والی کونسل کی افتتاحی تقریب میں امریکی ایوان نمائندگان کے رکن، مائیکل والٹز نے تفصیلاً بتایا کہ ڈبلیو پی ایس کے پروگرام کس طرح سماجی اور معاشی طور پر عورتوں کی اپنی کمیونٹیوں کو بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔

معاشرے میں عورتوں کا اہم  اور نمایاں کردار ادا کرنے سے انتہا پسند گروہوں کی متحرک رہنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ والٹز نے کہا، “جہاں عورتیں ترقی کرتی ہیں وہاں انتہاپسند نہیں کامیاب ہوتے۔”

والٹز نے اس بات پر زور دیا کہ جب عورتیں معاشی اور سماجی طور پر با اختیار ہوتی ہیں تو امن کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس امن کی ابتدا خاندان سے ہوتی ہے۔ جب اس میں کامیابی ہو جاتی ہے تو ملکوں کے سامنے (اچھے) نتائج آنا شرع ہو جاتے ہیں۔

امریکہ کی عمومی سفیر، کیلی کری نے کہا کہ آمرانہ حکومتیں اور انتہا پسند گروہ عورتوں اور لڑکیوں کی با اختیاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو زور دیتے ہوئے دہرایا کہ اپنے ہمخیال شراکت داروں کے ہمراہ امریکہ یہ یقینی بنانے کے لیے کام کررہا ہے کہ امن کے حصول اور پائیدار خوشحالی میں دنیا بھر کی عورتیں برابر کی شراکت دار ہوں۔

انہوں نے کہا، “جو معاشرے عورتوں کو معیشت، سیاست (اور) سماج سے متعلق تمام شعبوں میں مکمل شرکت کی اجازت دیتے ہیں وہ زیادہ محفوظ، زیادہ خوشحال اور، مجموعی طور پر زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔”

افغانستان میں عشروں پر پھیلی تعلیم، صحت اور کاروباری پروگراموں میں امریکی سرمایہ کاری کے افغان عورتوں اور لڑکیوں کے لیے اچھے خاصے فوائد سامنے آئے ہیں۔ امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کی جینی میکگی نے بتایا کہ 2001ء میں افغان عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آج بنیادی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی شرح 40 فیصد ہو چکی ہے۔

میکگی نے بتایا کہ اعلٰی تعلیم میں بھی طالبات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2019ء میں ایک لاکھ افغان عورتیں یونیورسٹی میں داخل ہوئیں۔

ایسا ہونے کی جزوی وجہ افغان عورتوں کو تعلیم اور کاروبار میں با اختیار بنانے کی امریکی حکومت کی اجتماعی سوچ ہے۔  یو ایس ایڈ کے عورتوں کے لیے سب سے بڑے دو طرفہ،  پروموٹ نامی پروگرام کے تحت افغانستان میں ہزاروں عورت لیڈروں کو کاروبار، سیاست اور معیشت میں تربیت دی گئی۔

پروموٹ کے تحت انصاف اور امن سے متعلق افغان معاشرے میں عورتوں کی آواز اٹھانے کے لیے ملک کے تمام کے تمام 34 صوبوں میں 5,000 سے زائد سرگرم کارکنوں کی مدد کی گئی۔ اس پروگرام کے ذریعے عورتوں کی مشمولہ اور بامعنی شرکت کے لیے بھی مدد کی جا رہی ہے۔

پروموٹ پروگرام کے تحت افغان معیشت میں عورتوں کو فراہم کی جانے والی مدد کے نتیجے میں عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی تربیت کی گئی اور انہیں نئی اور بہتر ملازمتیں حاصل ہوئیں۔ اس کے علاوہ پروموٹ پروگرام کی وجہ سے عورتوں کے مالکیتی کاروباروں کو یو ایس ایڈ کی سرپرستی میں ہونے والے تجارتی شوز میں کئی ملین ڈالر مالیت کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کرنے میں بھی آسانی رہی۔

یو ایس ایڈ “پروموٹ سکالرشپ انڈاؤمنٹ” اور دیگر مواقعوں کے ذریعے سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ یا ریاضی میں یونیورسٹی سطح کی تعلیم حاصل کرنے میں افغان عورتوں کی مدد کرتا رہے گا۔

یو ایس ایڈ کی میکگی نے کہا، “ٹیچروں، سرکاری ملازموں، کاروباری منتظمین اور صحافیوں کی حیثیت سے عورتیں افغانستان  میں عوامی زندگی کی ہر سطح پر نمایاں ہیں۔ امریکہ اور عطیات دہندگان کی عالمی برادری افغان عورتوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔”