روسی حکام نے 14 اپریل کو طلبا کے رسالے ‘ڈوکسا’ پر چھاپہ مارا اور چار ایڈیٹروں کو گرفتار کر لیا اور اُن کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی۔ ان طلبا کا مبینہ جرم؟ روسی حزب اختلاف کے قید رہنما، الیکسی نووالنی کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلبا کو یونیورسٹی منتظمین کے دھمکانے کی کوششوں کے بارے میں خبریں دینا۔
طلبا کی گرفتاری کریملن کی جانب سے آزاد اور خود مختار میڈیا کے خلاف جاری حالیہ ترین ایسی کاروائیاں ہیں جن میں صحافیوں کی گرفتاری اور اُن پر تشدد کی اطلاعات کے ساتھ ساتھ وہ قانونی نظام بھی شامل ہے جو حکومت کے ناقدین کو سنسر کرتا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 18 مارچ کو ایک ٹویٹ میں کہا، “آزاد میڈیا کے خلاف جاری روس کی مہم میں ڈرامائی طور پر شدت آ گئی ہے [اور] اظہار رائے پر مزید پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ روسی قوم کو بھی، تمام قوموں کی طرح معلومات اور نظریات کو آزادانہ طور پر تلاش کرنے، وصول کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے۔”
Troubled by reports that Russian occupation authorities in Crimea tortured @RFERL freelance journalist Vladislav Yesypenko to coerce his confession. We call for his release, and for Russia to cease its reprisals against independent voices in Crimea. #CrimeaIsUkraine
— Ned Price (@StateDeptSpox) April 13, 2021
فریڈم ہاؤس نے سال 2021 کے میڈیا کے سالانہ اشاریے میں روسی میڈیا کے ماحول کو “جکڑا ہوا” اور اس کی عدلیہ کو ولادیمیر پیوتن کے بڑھتے ہوئے آمرانہ سیاسی نظام کا “مطیع” قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، “صحافیوں کے خلاف حملے، گرفتاریاں، دفتروں پر چھاپے اور دھمکیاں روز کا معمول بن چکی ہیں اور حکام 2020ء میں پورا سال ماسکو سے باہر دوسرے علاقوں میں بھی صحافیوں کو شدت سے نشانہ بناتے رہے۔”
روسی حکومت کی صحافیوں کے ساتھ دستاویزی شکل میں محفوظ زیادتیوں میں مندرجہ ذیل زیادتیاں شامل ہیں:-
- روسی حکام نے 10 مارچ کو روسی مقبوضہ کریمیا میں ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی کے لیے لکھنے والے ولادی سلاو یسپینکو کو گرفتار کیا۔ انہوں نے 6 اپریل کو عدالت کو بتایا کہ روسی سکیورٹی فورسز نے ان پر بجلی کے جھٹکوں سے تشدد کیا، مارا پیٹا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔
- روسی حکام نے ملک کے ساتھ غداری کے الزام میں جولائی 2020 میں روسی اخبار ‘کمرسانت’ کے سابق صحافی ایوان سیفرونوف کو گرفتار کیا۔ وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ان پر عائد الزامات کی تفصیلات ابھی تک فراہم نہیں کی گئیں۔
- سوویت دور میں جوزف سٹالن کے جرائم کے مورخ، یوری دمتریئیف 13 برس کی قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ روس کی ایک عدالت نے 16 فروری کو اُن کی اس قید کے خلاف اپیل کو مسترد کردیا۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ ان کے خلاف الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ثبوتوں پر مبنی ہیں اور یہ الزامات اُن کے عدالتوں سے ماورا پھانسیوں اور جبری مشقت کے کیمپوں کے حالات کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے کے کام کے نتیجے میں کی جانے والی ایک انتقامی کاروائی ہیں۔
آزاد روسی خبر رساں ادارے، نووایا گزیٹا کی ایلینا میلشیانا بتاتی ہیں کہ انہیں چیچنیا میں اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے موت کی دھمکیوں اور مبینہ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور روسی حکام ان کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کریملن خصوصی طور پر آر ایف ای/ آر ایل کو نشانہ بناتا ہے جو کہ خبریں فراہم کرنے والی ایک نجی، غیر منفعتی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم معروضی رپورٹنگ کرتی ہے اور ایسے ممالک میں جمہوری اقدار کی حمایت کرتی ہے جہاں حکومتیں پریس کی آزادی کو محدود کرتی ہیں یا پابندیاں لگاتی ہیں۔ اگرچہ اس کی مالی اعانت امریکی حکومت کی گرانٹ کے ذریعے کی جاتی ہے، مگر آر ایف ای/ آر ایل کی ادارتی آزادی کو امریکی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
روس کا سرکاری میڈیا ریگولیٹر، راس کومانزور آر ایف ای/ آر ایل پر جنوری سے لے کر اب تک 220 ملین ڈالر سے زائد کا جرمانہ اور خلاف ورزیوں کے 520 نوٹس جاری کر چکا ہے کیونکہ آر ایف ای/ آر ایل اپنی رپورٹنگ میں نمایاں طور پر یہ لیبل یعنی “غیر ملکی ایجنٹ کے فرائض انجام دینے والے غیرملکی میڈیا کا تیار کردہ مواد” لگانے سے انکاری ہے۔ یہ ایسے تقاضے ہیں جن کا اطلاق صرف آر ایف ای/ آر ایل اور امریکہ سے منسلکہ اداروں اور افراد پر ہوتا ہے۔
آر ایف ای/ آر ایل کے صدر جیمی فلائی نے 16 اپریل کے ایک بیان میں کہا کہ روسی حکومت کے یہ اقدامات “اظہار رائے کی آزادی اور روسی عوام کے انسانی حقوق غصب کرنے کی ایک کوشش ہے۔”
اس کے برعکس، امریکہ میں روسی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا کے ادارے آزادی سے کام کر رہے ہیں۔
آزاد روسی صحافیوں نے روس کی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کی خاطر اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
ڈوکسا کے مدیران نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ روس میں صحافیوں کو ایک ایسے دباؤ کا سامنا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، “ہم اپنا کام بند نہیں کریں گے۔ ہم نوجوان لوگوں کے نزدیک جو چیز اہم ہے اُسے اجاگر کرتے رہیں گے اور ان کے حقوق کی حمایت کرنا جاری رکھیں گے۔”