
1993ء میں امریکہ کے ہولوکاسٹ میوزیم ( ہولو کاسٹ کے عجائب گھر) کے آغاز سے لے کر آج تک تعلیمی ماہرین میوزیم میں آنے والوں کو نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں (اور دیگر متاثرین) کی دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے اور اس جنگ کے دوران کی جانے والی نسل کشی کی ہولناکیوں کے بارے میں آگاہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
تاہم واشنگٹن میں قائم اس میوزیم کا ایک اور مشن بھی ہے۔ اس مشن کا تعلق عام لوگوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک کے منتخب عہدیداروں، فوجی افسران، شہریوں اور مذہبی رہنماؤں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں کی، دنیا کی تاریخ سے مثالیں دے کر نسل کشی کی علامات کو پہچاننے میں مدد کرنا بھی ہے۔ میوزیم کی ویب سائٹ کے مطابق، ” ہم لوگوں کو نفرت کا مقابلہ کرنے اور ماضی سے ایک مختلف مستقبل تشکیل دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔”
میوزیم کی نمائشوں اور سیمیناروں سے میوزیم میں آنے والے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ نسل کشی عام طور پر مرحلہ وار آگے بڑھتی ہے۔ اس میں امتیازی سلوک کے لیے معاشرے کے کسی ایک نسلی یا ثقافتی گروہ کو علیحدہ کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے اور صورت حال نفرت انگیز باتوں، ہراساں کرنے، نقل و حرکت پر پابندی لگانے اور بالآخر پرتشدد ظلم و ستم اور صفحہ ہستی سے مٹانے تک جا پہنچتی ہے۔

ہولوکاسٹ کے بارے میں تعلیم کے ولیم لوین فیملی کے انسٹی ٹیوٹ کے پروگرام کے لیے میوزیم میں تعلیم کی ڈئریکٹر، گریچن سکڈ مور نے بتایا کہ اگرچہ موجودہ وبا کی وجہ سے میوزیم عارضی طور پر بند ہے تاہم اس کی تعلیم رکی نہیں۔
نسل کشی کے مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے والے میوزیم کے فیس بک کے براہ راست ماہانہ سلسلے کے پروگرام کو براہ راست ہفتہ وار سلسلے کے پروگرام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پروگراموں کے اس سلسلے میں امریکہ کے ہولوکاسٹ کی یاد میں قائم کیے جانے والے اِس میوزیم کے تاریخ دانوں، منتظمین، ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والوں، اور ماہرین تعلیم کو، میوزیم دیکھنے والوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے براہ راست دکھایا جاتا ہے۔
تعلیم کا کردار
سکڈمور کہتی ہیں کہ نسل کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم انتہائی اہم ہے۔ میوزیم کے بہت سے (تعلیمی) مواد کی توجہ کا مرکز طلبا ہوتے ہیں کیونکہ “جوان ہوتے ہوئے لوگ کلیدی سامعین کا درجہ رکھتے ہیں۔ … [اپنے پیش روؤں کے برعکس] آج کل کے نوجوانوں کے لیے یہ کم امکان ہے کہ وہ خاندان کے کسی ایسے فرد کو جانتے ہوں جو دوسری جنگ عظیم یا ہولوکاسٹ کا ذاتی تجربہ رکھتا ہو۔”
انہوں نے کہا، “نازی، یہود دشمن اور نسل پرست نظریہ ایسے ملک میں جڑ پکڑتا ہے جہاں جمہوری آئین ہوتا ہے۔ جرمنی اور پورے یورپ میں لاکھوں افراد نسل کشی کے جرم میں شریک رہے یا اس سے لاتعلق رہے۔”
امریکہ کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے پہلے ہفتے کے دوران، انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والوں کے اسباق “جتنے اہم آج ہیں اتنے پہلے کبھی بھی نہیں تھے — بلکہ ہوسکتا ہے اس سے بھی کچھ بڑھ کر ہوں۔ یہ کوئی حادثاتی بات نہیں ہے کہ وہ لوگ جو عدم استحکام پیدا کرتے ہیں اور جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں اکثر ہولوکاسٹ کے بارے میں شک پھیلاتے رہتے ہیں۔ وہ سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر کو دھندلانا چاہتے ہیں۔”
میوزیم کے بانی چیئرمین اور ہولوکاسٹ سے زندہ بچنے والے، ایلی ویزل نے کہا، “میوزیم جواب نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سوال ہے۔”
بلنکن نے اخلاقی انتخاب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “میں یاد رکھوں گا کہ ہولوکاسٹ جیسے مظالم کو دوبارہ وقوع پذیر نہ ہونے دیا جائے۔ ان کو وقوع پذیر ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انہیں روکنا ہمارے تک ہے۔”