امریکہ اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) سے نکل رہا ہے اور اس تنظیم میں اپنا ایک مستقل مبصر کی سطح کا دفتر قائم کر رہا ہے۔
یونیسکو کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ایک ثقافتی ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ اس کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری دنیا کے مخصوص مقامات کو “ثقافتی مقامات” قرار دے کر دنیا کے ثقافتی اور قدرتی ورثے کو محفوظ بنانے میں مدد کرنا ہے۔
محکمہ خارجہ کے حکام نے بتایا کہ یونیسکو چھوڑنے کا فیصلہ یونیسکو کے بڑھتے ہوئے واجبات کے بارے میں خدشات، تنظیم کے اندر بنیادی اصلاحات لانے کی ضرورت اور تنظیم کا اسرائیل مخالف تعصب کا عکاس ہے۔
صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ اور اس کے تمام اداروں میں تبدیلی پر زور دیا ہے۔ ستمبر میں انہوں نے اِس بین الاقوامی تنظیم کو مفصل اصلاحات نافذ کرنے پر بھی زور دیا تاکہ یہ “دنیا بھر کے لوگوں کا دوبارہ اعتماد حاصل کر سکے۔”
امریکی حکام نے یونیسکو کے روز افزوں سیاسی رنگ میں رنگے جانے پر اعتراض کیا۔ محکمہ خارجہ نے یونیسکو کی اُن اسرائیل مخالف قراردوں کا حوالہ دیا جن میں بین المقدس سمیت اسرائیل کے مقدس مقامات کے ساتھ رشتوں کا انکار کیا گیا ہے۔
امریکہ نے نومبر 2011 میں اُس وقت اپنے حصے کی رقم دینا بند کردی تھی جب اس تنظیم کی جنرل کانفرنس نے فلسطینی اتھارٹی کو ایک رکن ملک بننے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یونیسکو کے ووٹ نے امریکہ کی اُن دو قانونی دفعات کو متحرک کر دیا جن کے تحت امریکہ کے اقوام متحدہ یا اقوام متحدہ کے کسی بھی ایسے ادارے کو پیسے دینے کی ممانعت ہے جو بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جانے والی ریاست کی تعریف پر پوری نہ اترنے والی کسی تنظیم یا گروہ کو اپنا رکن بنائے۔
فنڈنگ کی پابندیوں کی وجہ سے 2018ء تک امریکہ کے ذمے یونیسکو کے واجبات کے 55 کروڑ ڈالر تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔ ایک مبصر کی حیثیت سے، امریکہ اپنے اتحادیوں اور ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر یونیسکو کو سیاست سے پاک کرنے، اس کی انتظام کاری کو مضبوط بنانے اور اس کو سونپی گئی ذمہ داریوں سے تجاوز سے روکنے کی خاطر لابی کرنے کا کام جاری رکھ سکتا ہے۔ اس اثنا میں یہ بھی ممکن ہوگا کہ امریکہ کے ذمے واجبات کی رقم بھی نہیں بڑھے گی۔
اس سے قبل 1985ء میں بھی امریکہ یونیسکو سے نکل گیا تھا۔ 2003ء میں واپسی تک امریکہ کا درجہ ایک مبصر کے برابر تھا۔
امریکہ کا نکلنا 2018ء کے اواخر میں نافذ العمل ہوگا۔ اس سے امریکہ کی تعلیمی، سائنسی، ثقافتی، روابط اور معلومات کی وہ سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی جو امریکی مفادات سے مطابقت رکھتی ہیں۔