امریکہ کورونا وائرس کی محفوظ اور موثر ویکسین کی تیاری کے قریب

بھورے رنگ کے ایک قطرے کے اردگرد چھوٹے، رنگ برنگے ذرات اور ذرات کے گچھے (NIAID-RML)
الیکٹران کی سکیننگ کرنے والی خورد بینی تصویر میں، ایک مریض سے لیے گئے اور تجربہ گاہ کے عمل سے گزارے گئے سارز – کوو – 2 وائرس کو خلیات سے باہر نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سارز – کوو – 2 وائرس ہی کووڈ-19 کا سبب بنتا ہے۔ (NIAID-RML)

امریکہ میں کووڈ-19 کے لیے تین ممکنہ ویکسینوں کی جانچ پڑتال آخری مرحلے میں ہے جو کہ دنیا کو ایک ریکارڈ وقت میں ویکسین فراہم کرنے کی جانب ایک بڑا اہم قدم ہے۔

امریکہ کے صحت کے قومی ادارے (این آئی ایچ) نے 31 اگست کو اعلان کیا کہ دوا ساز کمپنی، آسٹرا زینیکا ایک ممکنہ ویکسین کی تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹیسٹنگ یعنی کورونا وائرس کے مریضوں کو آزمائشی طور پر یہ ویکسین لگانا شروع کررہی ہے۔ یہ ان متعدد ویکسینوں میں سے ایک ہے جن سے سارز- کوو -2  کے خلاف مدافعتی ردعمل پیدا کرنے کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ سارز- کوو -2  ہی وہ کورونا وائرس ہے جو کووڈ-19 کا سبب بنتا ہے۔

محفوظ اور موثر ویکسین کی تیاری کے لیے حکومتی منظوری حاصل کرنے سے پہلے، تیسرے مرحلے کی کلینیکل ٹیسٹنگ  ہی حتمی مرحلہ ہوتا ہے۔  این آئی ایچ اور امریکی حیاتیاتی ٹکنالوجی بنانے والی کمپنی، موڈرنا نے جولائی میں ایک ویکسین کی تیسرے مرحلے کی ٹیسٹنگ کا آغاز کیا تھا، جبکہ فائزر اور بائیواین ٹیک نامی کمپنیاں بھی جولائی ہی میں  اپنی اپنی ویکسینوں کی کلینیکل ٹیسٹنگ کے آخری مراحل میں داخل ہوئیں۔

آسٹرا زینیکا کا صدر دفتر برطانیہ میں ہے اور بائیو این ٹیک جرمنی میں ہے۔ این آئی ایچ نے تینوں ممکنہ ویکسینوں کے لیے مالی مدد فراہم کی ہے اور امریکہ میں درجنوں مقامات پر اِن کی ٹیستنگ جاری ہے۔

عام حالات میں گو کہ ویکسینوں کی تیاری میں برسوں لگ جاتے ہیں مگرٹرمپ انتظامیہ تیز رفتاری سے ویکسین دریافت کرنے، وسیع پیمانے پر تیار کرنے، اور تقسیم کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔

امریکہ ‘ آپریشن وارپ سپیڈ’ کے ذریعے سال کے اختتام سے قبل ویکسین تلاش کرنے کی غرض سے سرکاری سائنس دانوں، دوا ساز کمپنیوں اور یونیورسٹیوں کے محققین کو اکٹھا کر رہا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران تیار کی جانے والی کسی بھی ویکسین کے محفوظ ہونے کو اور اس کی سالمیت کو یقینی بنایا جائے گا۔

کووڈ-19 کی ویکسین کے کلینیکل ٹسٹوں اور روک تھام کے دیگر وسائل کے لیے این آئی ایچ نے 8 جولائی کو کلینیکل ٹیسٹوں کے ایک نیٹ ورک کا آغاز کیا۔ این آئی ایچ نے تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹسٹ وضح کرنے کے لیے دواساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کیا اور یہی ادارہ اِن ٹسٹوں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے والے ہزاروں رضاکاروں کی نگرانی بھی کرے گا۔

الرجی اور متعدی امراض کے قومی ادارے کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر انتھونی فوچی کہتے ہیں، “سائنسی لحاظ سے اِن سخت، بلا ترتیب اور اچانک کیے جانے والے اور اصلی و نقلی دوا کے ملے جلے تجربات کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا زیر نظر ویکسین کووڈ-19 کو روک سکتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا تحفظ کتنے عرصے تک قائم رہتا ہے۔”

ایک بار جب مصدقہ طور پر کوئی محفوظ اور موثر ویکسین تیار ہو جائے گی تو آپریشن وارپ سپیڈ کے تحت اس کی تیزی سے دستیابی کو یقینی بنانے کی خاطر ویکسین بنانے والوں کو تیار رہنے پر اچھا خاص خرچہ کیا گیا ہے۔ اگر کوئی ممکنہ ویکسین ناکام ہو جاتی ہے تو اس کی تیاری اور تجربات پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے ہونے والا نقصان امریکی حکومت برداشت کرے گی۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 2 ستمبر کو کہا، “دنیا بھر میں امریکہ جیسی ایسی کوئی قوم نہیں ہے جو ویکسین کی فراہمی کے لیے اتنا مضبوط عزم رکھتی ہو۔”