
امریکہ دنیا بھر میں حکومتی شفافیت کو فروغ دینے کے لیے “اوپن گورنمنٹ پارٹنرشپ” (کھلی حکومت کی شراکت کاری) کا حصہ ہے۔ اس شراکت میں شامل رکن ممالک کی تعداد بڑھکر اب 78 ہو گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے 25 جنوری کو اعلان کیا کہ روزمرہ بریفنگ میں اشاروں کی امریکی زبان (اے ایس ایل) کا ایک مترجم موجود ہوا کرے گا/گی۔ جین ساکی نے 25 جنوری کو کہا کہ بائیڈن “ایسے امریکہ کی تعمیر کے لیے پرعزم ہیں جو معذور امریکیوں اور ان کے اہل خانہ سمیت ہر ایک امریکی کے لیے زیادہ مشمولہ، زیادہ انصاف پسند، اور زیادہ قابل رسا ہو۔”
وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ میں اے ایس ایل مترجم کی شمولیت سے ایسے لوگ بھی حکومتی اعلانات کو سمجھ سکیں گے جو اونچا سنتے ہیں۔ اس اقدام کا شمار اُن بہت سے دیگر اقدامات میں ہوتا ہے جن کا مقصد امریکی حکومت کے کھلے پن اور احتساب کو یقینی بنانا ہے۔
امریکی حکومت نے اس امر کو بھی لازمی قرار دے رکھا ہے کہ تمام وفاقی ویب سائٹوں اور ویڈیوز میں کیپشن یعنی لکھی ہوئی عبارت بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ اونچا سننے والے افراد کو بھی اِن تک رسائی حاصل ہوسکے۔ نئی انتظامیہ وائٹ ہاؤس کا تمام مواد ہسپانوی زبان میں شائع کرتی ہے اور ہسپانوی زبان میں @LaCasaBlanca (لا کاسا بلانکا) کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی چلاتا ہے۔
El plan de rescate económico garantizaría que cada persona que necesita una vacuna tenga la oportunidad de vacunarse sin ningún costo. pic.twitter.com/zC0OyyFXGQ
— La Casa Blanca (@LaCasaBlanca) February 19, 2021
اِن تمام کوششوں میں اس اصول کی پیروی کی جاتی ہے کہ جمہوریت کے لیے کھلی حکومت ضروری ہے اور یہ کہ معلومات کا آزادانہ بہاؤ شہریوں کو بااختیار اور معاشروں کو بہتر بناتا ہے۔
امریکہ مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے عوام کو حکومتی معلومات فراہم کرتا ہے:-
حصول معلومات کی آزادی کا قانون (ایف او آئی اے): 1966ء میں منظور کیا جانے والا ایف او آئی اے قانون عوام کو وفاقی ریکارڈ تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ اگرچہ اس ریکارڈ کے لیے کوئی بھی درخواست دے سکتا ہے تاہم مخصوص قسم کے مواد کو افشا کیے جانے سے استثنا حاصل ہے۔ اس میں قومی سلامتی سے متعلقہ خفیہ معلومات، ذاتی شناخت سے متعلق معلومات، تجارتی راز اور دیگر زمروں میں آنے والی معلومات شامل ہیں۔
گورنمنٹ اِن دا سن شائن ایکٹ: گورنمنٹ اِن دا سن شائن ایکٹ یعنی حکومتی شفافیت کا قانون 1976ء میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت حکومتی اجلاس کو عوام کی رازداری پر غیرضروری دخل اندازی یا نفاذ قانون میں سلامتی کے خطرے میں پڑنے جیسے معاملات سے متعلق محدود استثناؤں کو چھوڑ کر عوام کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔ سرکاری اداروں پر لازم ہے کہ وہ اجلاس کی تاریخ اور اس کے ایجنڈا کے بارے میں ایک ہفتہ پیشگی اطلاع دیں۔
غیرمخفی کرنا: غیرمخفی کرنے کے لیے جائزے کا عمل انتظامی حکم نامہ نمبر 13526 (پی ڈی ایف، 205 کے بی) میں بیان کیا گیا ہے۔ اس عمل کے تحت کوئی بھی فرد یا ادارہ کسی بھی ایسے ریکارڈ کو غیر مخفی کرنے کی درخواست دے سکتا ہے جو اس حکم نامے کے تحت خفیہ قرار دیا گیا ہو۔ تاہم اس میں کچھ حدود کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ انتظامی حکم نامہ اُن وجوہات کی بنیاد پر معلومات کو مخفی رکھنے کا اختیار دیتا ہے جن میں قومی سلامتی اور غیرملکی تعلقات شامل ہیں۔
قومی دستاویزات: قومی دستاویزات کا ادارہ وہ حکومتی دستاویزات جمع کرتا اور انہیں محفوظ کرتا ہے جن کا تعلق امریکی تاریخ سے ہوتا ہے۔ یہ ادارہ دیکھنے والوں کو وفاقی فیصلہ سازی کے پیچھے کارفرما بصیرت کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ اُن صدارتی لائبریریوں اور عجائب گھروں کا انتظام بھی چلاتا ہے جو سیاحوں اور علمی ماہرین کو سابقہ امریکی لیڈروں کے بارے میں جاننے میں مدد کرتے ہیں۔
Congress.gov (کانگریس): امریکی کانگریس اپنی ویب سائٹ پر وہ معلومات شائع کرتی ہے جو عوام کو ملک کی قانون ساز شاخ کی روزمرہ کی کاروائی سے باخبر رکھتی ہیں۔ اِن میں نئے اور تجویز کردہ قوانین کے متن، سماعتوں کی حرف بحرف تفاصیل اور حکومت کی ریسرچ رپورٹیں شامل ہوتی ہیں۔
کانگریس لائبریری: کانگریس لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ اس میں لاکھوں کے حساب سے کتابیں، ریکارڈ شدہ مواد، تصویریں اور دیگر دستاویزات موجود ہیں۔ یہ لائبریری دنیا بھر کے لوگوں کو امریکی تاریخ کے بارے میں جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
بائیڈن نے 4 فروری کی ایک یاد داشت میں ایک ایسی حکومت کے ساتھ اپنے عزم پر زور دیا جو رسائی، تنوع، مساوات اور شمولیت کو امریکی خارجہ پالیسی کے مرکزی اصولوں کی حیثیت سے ترجیح دیتی ہے۔
انہوں نے کہا، “ہمارے ادارے ملک کے اندر اور دنیا بھر میں امریکی عوام کی نمائندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ تنوع، مساوات، شمولیت اور رسائی کو قومی سلامتی کی ایک ضرورت کی حیثیت سے ترجیح دینا میری انتظامیہ کی پالیسی ہے تاکہ قومی سلامتی کی افرادی قوت میں انتہائی اہم نقطہائے نظر اور ذہانتوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔”