
امریکہ اُن شامی کاروباروں اور فوجی عہدیداروں پر اضافی پابندیاں لگا رہا ہے جو بشار الاسد کی حکومت کے اُن سفاک جرائم میں مدد کرتے ہیں جن میں بے شمار شامی بستیوں میں کی جانے والی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے اِن پابندیوں کا اعلان 30 ستمبر کو کیا۔ یہ پابندیاں شمال مغربی شام کے شہر ارمناز میں 29 ستمبر 2017 کو کم از کم 34 شامیوں کی ہلاکتوں کی تیسری برسی کے موقع پر لگائی گئی ہیں۔
پومپیو نے ایک بیان میں کہا، “اس وقت سے شام کے طول و عرض میں بشار الاسد کے ہزاروں بم سکولوں، ہسپتالوں، اور مارکیٹوں پر گرائے جا رہے ہیں۔ اپنے عوام پر فوجی فتح حاصل کرنے کی ناکام کوشش میں بے تحاشا انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔”
یہ پابندیاں “سیزر سیرین سویلین پروٹیکشن ایکٹ 2019” (شام سے متعلق شہریوں کے تحفظ کے قانون) سے متعلق پابندیوں کا چوتھا مجموعہ ہیں۔ اس امریکی قانون کا مقصد اسد اور اُس کے آلہ کاروں کو شامی عوام کے خلاف اُن کے جرائم پر جوابدہ ٹھہرانا اور شام میں ہونے والی خانہ جنگی کو ایک پرامن خاتمے کی طرف لے جانا ہے۔
نئی پابندیوں کا ہدف اسد کے 17 ساتھی اور کاروبار ہیں۔ اِن میں فوج اور حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کی مالی مدد کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
اسی دوران، شامی بحران سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے 24 ستمبر کو 720 ملین ڈالر سے زائد کی انسانی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس امداد کے بعد، 2011ء میں شامی بحران کے آغاز سے لے کر آج تک امریکہ کی طرف سے دی جانے والی مجموعی امدادی رقم 12 ارب ڈالر سے زائد ہو گئی ہے۔

29 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ہٹ کر ہونے والے ایک علیحدہ اجلاس کو شامی معاملات کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی، جیمز ایف جیفری نے بتایا کہ امریکہ ایک ایسے حل کی کوشش کر رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس قرارداد میں شام کی سربراہی میں امن کے ایک ایسے منصوبے کا کہا گیا ہے جو شامی عوام کی مصیبتوں کو ختم کر دے۔
جیفری نے انسانی حقوق کے شامی نیٹ ورک کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کو بتایا، “حکومت کے مظالم کے ثبوت، جن میں سے کچھ جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کی سطح تک پہنچتے ہیں، بے شمار ہیں۔”
کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی تنظیم کو سراقب میں فروری 2018ء میں اور اسی سال دوما میں اپریل میں کیے جانے والے حملوں میں کلورین گیس کے استعمال کیے جانے کے ثبوت ملے ہیں۔ دونوں حملے باغیوں کے زیرقبضہ اُن علاقوں میں کیے گئے جنہیں اسد حکومت واپس لینے کے لیے جنگ کر رہی ہے۔ دوما کے حملے میں درجنوں افراد ہلاک جب کہ سراقب کے حملے میں 11 افراد زخمی ہوئے۔
انسانی حقوق کے شامی نیٹ ورک کے مطابق، 2011ء سے لے کر اب تک 150,000 شامی من مانے طور پر گرفتار کیے جاچکے ہیں اور 60 لاکھ اپنی جانیں بچانے کی خاطر ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
Today, the U.S. sanctioned 17 of Assad’s corrupt military, government, and business leaders, as well as firms profiting from the Syrian conflict. Their actions victimize the Syrian people and needlessly prolong their suffering. UNSCR 2254 is the only path forward.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) September 30, 2020
ٹویٹ:
وزیر خارجہ پومپیو
آج امریکہ نے اسد کی بدعنوان فوج، حکومت اور 17 کاروباری لیڈروں کے ساتھ ساتھ شامی خانہ جنگی سے پیسے بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگائی ہیں۔ اِن کی کاروائیوں میں شامی عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور غیرضروری طور پر اُن کی مصیبتوں کو طول دیا جا رہا ہے۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یو این ایس سی آر 2254 ہے۔
اعلان کردہ نئی پابندیوں سے جنگ بندی کے حصول کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے والے شامی فوج کی پانچوِیں کور کے کمانڈر، میلاد مجید کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح نسرین ابراہیم اور رعنا ابراہیم کو بھی اِن پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں اسد کی مالی مدد کرنے والے، یاسر ابراہیم کی بالغ بہنیں ہیں۔ یاسر ابراہیم، اسد اور اس کی بیوی کے مالی مفادات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ شامی تاجر خضر طاہر بن علی کو پابندیوں کے لیے نامزد کر رہا ہے۔ یہ شخص شامی فوج کے چوتھے ڈویژن اور اس کی مختلف کمپنیوں کے لیے درمیانے فرد کا کردار ادا کرتا ہے۔ اِن اقدامات سے شام کی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے حسام محمد لوقا کے ساتھ ساتھ شام کے مرکزی بنک کے گورنر، حازم یونس کارفول کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ سٹیون ٹی منوچن نے 30 ستمبر کو ایک بیان میں کہا، “بشار الاسد کی ظالمانہ حکومت کی حمایت جاری رکھنے والے اس کی حکومت کی بدعنوانی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔ امریکہ کسی بھی ایسے (شخص یا ادارے) کو نشانہ بناتا رہے گا جو اسد حکومت کی شامی عوام کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں سے پیسے بناتا ہے یا معاونت کرتا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ اپنے تمام وسائل اور اختیارات کو بروئے کار لانا جاری رکھے گا۔”