میمی بائنی اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے گھانا سے امریکہ آنے کے بارہ برس بعد اولمپکس کے لیے امریکی سپیڈ سکیٹنگ ٹیم میں جگہ پانے والی پہلی افریقی نژاد امریکی خاتون بن گئیں۔
بائنی پہلی مرتبہ اس کھیل سے اس وقت متعارف ہوئیں جب ان کے والد نے ریاست ورجینیا کے علاقے ریسٹن میں ایک آئس رِنک [برف سے تیار کیے گئے فرش] کے باہر ‘سکیٹنگ سیکھیے’ کا اشتہار دیکھ کر سوچا کہ ان کی چھ سالہ چست بیٹی اپنی وافر توانائی کی کچھ مقدار سکیٹنگ میں لگا سکتی ہے۔
بیٹی نے ایسا ہی کیا اور ثابت کر دیا کہ آئس سکیٹنگ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اس کے والد یاد کرتے ہیں کہ جونہی اس نے برف پر قدم رکھے تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کئی ماہ سے سکیٹنگ کرتی چلی آ رہی ہے۔
بائنی نے پہلے فگر سکیٹنگ کی کوشش کی مگر ایک کوچ نے ان کی تیزرفتاری کو دیکھتے ہوئے انہیں سپیڈ سکیٹنگ کامشورہ دیا۔ پہلے پہل انہوں نے مقامی مقابلوں میں حصہ لیا اور پھر امریکی جونیئر چیمپین شپ میں شرکت کی جہاں انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتا۔
اپنے شاندار آغاز اور لمبے قدموں کی بدولت آج بائنی کا شمار شارٹ ٹریک سپیڈ سکیٹنگ کے نمایاں ترین امریکی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ دسمبر 2017 میں انہوں نے خواتین کا 500 میٹر مقابلہ جیتا اور 2018 میں جنوبی کوریا کے شہر پیانگ چانگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے لیے امریکی ٹیم میں اپنی جگہ بنا لی۔

وہ اس کھیل میں امریکہ کی نمائندگی کرنے والی پہلی افریقی نژاد امریکی کھلاڑی ہی نہیں بلکہ انہیں 17 سال کی عمر میں امریکی ٹیم کی کم عمر ترین سپیڈ سکیٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اس کے باوجود ہائی سکول کی یہ ذہین طالبہ جو مستقبل میں کیمیکل انجینئر بننا چاہتی ہیں، کھیل میں اپنی کامیابیوں کو کوئی بڑا کارنامہ نہیں سمجھتیں۔ ان کا کہنا ہے، “میں چاہتی ہوں ہر کوئی یہ دیکھے کہ یہ کھیل اس وقت کتنا پُر لطف ہوتا ہے جب کوئی تیزی سے حرکت کرتا ہے اور زبردست دکھائی دیتا ہے۔ میں کوئی غیرمعمولی فرد نہیں ہوں۔ بس میں اپنے بارے میں اچھا محسوس کرتی ہوں۔ ہمیں اپنے آپ پر فخر کرنا چاہیے۔”

بائنی کو امید ہے کہ لڑکیوں کو انہیں دیکھ کر اپنے خوابوں کی تکمیل میں مدد ملے گی۔ بائنی کے پرستار مغربی افریقہ سمیت جہاں سکیٹنگ عام نہیں ہے، دنیا بھر میں موجود ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “چونکہ افریقہ میں سپیڈ سکیٹنگ یا کوئی بھی برفانی کھیل کھیلے جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے میرا وہاں کے بچوں کو یہ کہنا ہے کہ کوئی ایسا کام کریں جو آپ کو پسند ہو اور جسے کر کے آپ خوش رہیں۔ کیونکہ اگر آپ کو کسی کام میں لطف نہیں آتا تو اسے کرنے کا کیا فائدہ؟”
بائنی کہتی ہیں کہ فروری میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں ان کی حکمت عملی بالکل سادہ ہو گی یعنی “تیزی سے آگے بڑھوں اور گروں نہ۔” وہ مختصر ترین فاصلے کے 500 میٹر مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں جن میں انتہائی تیزرفتاری درکار ہوتی ہے۔
بائنی کے والد کویکو کہتے ہیں اگرچہ اولمپک کھیلوں میں کھلاڑی پر شدید ہوتا ہے مگر انہیں امید ہے کہ وہ اس دباؤ پر قابو پا لیں گی اور اس تجربے سے لطف اندوز ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے، “جب آپ پنی توجہ اپنے کام پر مرکوز کر لیتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ انہیں کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ انہیں کوئی خوف ہے۔”

کویکو کا کہنا ہے جہاں تک ان کا تعلق ہے تو اپنی بیٹی کو اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں امریکی ٹیم کے ساتھ چلتے دیکھنا ہی ان کے لیے کافی ہو گا۔ اگر بیٹی کو اس کے علاوہ کوئی کامیابی ملتی ہے تو وہ اسے بونس سمجھیں گے۔
اس مضمونکی تیاری میں وائس آف امریکہ کی جانب سے شائع کیے گئے ایک مضمون سے استفادہ کیا گیا ہے۔